جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اے پی سی بلانے پر ایمل ولی خان کے مشکور ہیں، عوامی مسائل کے حل کیلئے ہم سب کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں۔

اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئےمولانا فضل الرحمان نےکہا کہ اے پی سی میں تمام جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں، ایسی مجالس کا انعقاد خوش آئند ہے، ریاست کی پہلی ترجیح انسانی حقوق کا تحفظ ہےکے پی ہو، بلوچستان ہو یا سندھ ہو، تینوں صوبوں میں دن اور رات میں عام آدمی محفوظ نہیں، قبائلی علاقہ جات مسلح گروہوں کی گرفت میں ہیں، کاروباری لوگ کاروبار نہیں کر سکتے، بھتے دینے پڑتے ہیں،سرکاری فنڈز کا دس فیصد ان مسلح گروہوں کو ادا کیا جاتا ہے، ہمارے قبائلی علاقوں کے معدنی وسائل اور ذخائر جو عوام کے ہیں، ملک میں قوانین موجود ہیں۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ دنیا میں سرمایہ کاری ہوتی ہے کمپنیاں اتی ہیں مقامی لوگوں کا اپنا شئیر ہوتا ہے ریاست کا اپنا شہیر ہوتا ہے، اس ملک میں تمام کاروائیاں اتھارٹی قائم کرنے کے لئے ہوتی ہیں، آسان فارموںوں کے تحت دنیا کو انگیج کر سکتے ہیں، آج وسائل ملک کے مستقبل کو روشن کرنے کے لئے سامنے آچکے ہیں، مگر وہاں پر اتھارٹی جمائی جاتی ہے، عوام، پارلیمنٹ کا کوئی اختیار نہیں، ہم نے فاٹا کا انضمام کیا، آٹھ نو سال گزر جانے کے بعد ریاست کمیٹی بناتی ہے کہ قبائل کا جرگہ سسٹم دوبارہ بحال ہو۔

وسائل موجود ہیں، مدد کےلیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا،علی امین گنڈاپور

انہوں نے کہا کہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے جرگہ قومی ہوتا تھا اور امن کی ذمہ داری اقوام پر ہوتی تھی جو حکومت کو منتقل ہو گئی، آج نو سال بعد جرگہ سسٹم کو بحال کرنے ضرورت کیوں پڑھ گئی؟یہ تاثر جا رہا ہے کہ انتضمام فاٹا کے اعلاقوں تک رسائی کے لئے کیا گیا، اب امن و امان کی ذمہ داری قبائل پر ڈالی جا رہی ہے، یہ فیصلہ تاریخ کرے کہ کس کی رائے ٹھیک نہیں ہے، کہاں ہیں وہ 100 ارب روپے جو ملنے تھے؟ کہاں ہیں وہ خواب جو دکھائے گئے؟ مائن اور منرل ایکٹ کے حوالے سے قانون بنائے جاتے ہیں، یہ قانون سازی آئین کے متصادم ہے، اٹھارویں ترمیم میں دیے گئے اختیارات قانون سازی کے ذریعے واپس لیے جا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ ججز کیلئے سرکاری گاڑیوں کے استعمال کی نئی پالیسی نافذ ، چھٹیوں کے قواعد میں بھی ترمیم

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ متنازع چیزوں پر بحث کرنے کی بجائے متفقہ چیروں کو سامنے لایا جائے، بدقسمتی سے ملک کا سیاسی اور پارلیمانی نظام مسلسل سوالیہ نشان بن گیا ہے، موجودہ حکومت نمائندہ عوام نہیں اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہےآج ہم اختلاف کر رہے ہیں پر امن مارچ کر رہے ہیں یہی چیزں بغاوت تک پہنچا دیتی ہیں، نظام کو سیدھا اور ٹھیک کیا جائے، ہم اپنے مؤقف پر آج بھی قائم ہیں۔

Shares: