پشاور ہائیکورٹ میں انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی گئی-

باغی ٹی وی : پشاور ہائیکورٹ میں انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت جاری ہے ،جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی نے کیس کی سماعت شروع کی تو پی ٹی آئی وکیل شاہ فیصل اتمانخیل اور الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر شاہ مہمند عدالت میں پیش ہوئے،پی ٹی آئی وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ بیرسٹر گوہر راستے میں ہیں، کیس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا جائے۔اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم جواب جمع کرتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ ابھی جواب جمع کرلیں، عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔

کافی دیر گزرنے کے بعد بھی بیرسٹر گوہر نہ پہنچے تو پی ٹی آئی وکلاء نے ساڑھے بارہ بجے تک وقت دینے کی استدعا کی، تاہم، بیرسٹر گوہر ساڑھے بارہ بجے بھی پیش نہ ہوسکے، عدالت نے برہمی کا اظہار کیا تو ایڈووکیٹ قاضی انور نے کہا کہ بس 5 سے 10 منٹ میں پہنچ جائیں گے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ صبح سے ہم اس کے لیے انتظار کر رہے ہیں، سپریم کورٹ میں جب ہمارے کیسز ہوتے تھے تو ہم صبح پہنچتے تھے، یہ کونسا طریقہ ہےبینچ کوانتظار کروایا جارہا ہے،قاضی انور ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ بس تھوڑا وقت دیا جائے، کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔

اس کے بعد عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنا جواب جمع کردیا ہے، جسٹس اعجاز انور نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ سے سماعت میں تو دلچسپی نہیں لے رہے، آپ یہاں سے آج سماعت چاہتے ہیں؟، جس پر وکیل قاضی انور نے کہا کہ نہیں ہم یہاں سماعت چاہتے ہیں، عدالت نے کہا کہ پھر ٹھیک ہے وہ آجائیں تو کیس سنتے ہیں۔

عدالت میں بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر ظفر کا انتظار جاری تھا کہ اس دوران جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اعتراض کرنے والے وکلا کو بھی طلب کیا جائے، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ تحریک انصاف کے انتخابات پر سب سے پہلا اعتراض اکبر ایس بابر کا ہے، وہ کہاں ہیں؟

الیکشن کمیشن میں درخواست دینے والے جہانگیر رضا نے عدالت میں بیان دیا کہ میرا وکیل ہڑتال کی وجہ سے کورٹ میں نہیں آرہا جس پر جسٹس انور اعجاز نے کہا کہ یہ کورٹ ہے ہمارا ہڑتال سے کوئی سروکار نہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 13 تاریخ کو الیکشن کمیشن امیدوار کو انتخابی نشانات الاٹ کرے گا، پی ٹی آئی کو اگر نشان الاٹ نہیں ہوتا تو وہ آزاد تصور ہوں گے، ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو عبوری ریلیف دیا تھا وہ ختم ہوگیا ہے۔

جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ہم آج فیصلہ کرلیں تو یہ مسئلہ ختم ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ میں کیس کی ضرورت نہیں؟، جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ بالکل پھر ضرورت نہیں۔

جسٹس اعجاز انور نے پی ٹی آئی وکلا کو کہا کہ آپ ان کو سمجھا دیں کہ وقت پر آیا کریں، مزید انتظار نہیں ہوگا،ایک بج کر 15 منٹ پر دوبارہ سماعت ہوگی، مزید وقت نہیں دیا جائے گا اتنے میں پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر علی خان ہائیکورٹ پہنچ گئے سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے تاخیر سے پہنچنے پر معذرت کرلی۔

اس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا، بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو شکایات دینے والوں نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی استدعا کی تھی، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات جون 2022 میں کرائے، ہم نے الیکشن کمیشن کو ریکارڈ پیش کیا، بعد میں الیکشن کمیشن نے اس پر سوالات اٹھانا شروع کئے اور آخر میں الیکشن کمیشن نے 20 روز میں دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم دیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن حکم کے مطابق دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، جب الیکشن کرائے تو الیکشن کمیشن نے کہا کہ اعتراض آگئے ہیں،الیکشن کمیشن کو اعتراضات دینے والے غیر متعلقہ لوگ ہیں، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات پر کوئی سوال نہیں اٹھایا، الیکشن کمیشن نے کہا سیکرٹری جنرل عمر ایوب کی تعیناتی درست نہیں اور عمر ایوب کی تعیناتی پر انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔

بیرسٹر علی ظفرنے کہا کہ انتخابات کالعدم قرار دینے کے بعد انتخابی نشان لے لیا گیا، اب پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد ہوں گے، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہوگی جنہوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں ان میں کوئی بھی پارٹی کے ممبر نہیں ہیں، ہمارے 8 لاکھ ووٹرز میں اعتراض کرنے والوں نے نام شامل نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہمارے ووٹرز کی جان بلے میں ہے ہم سے بلے کا نشان لے لیا جاتا ہے تو ہم غیر فعال ہو جائیں گے، جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ آپ کو یہ اعتراض ہے کہ انٹراپارٹی الیکشن کا معاملہ الیکشن کمیشن کے اختیار میں نہیں آتا، پی ٹی آئی مخصوص 227 نشستوں میں اپنے حصے سے محروم ہوجائے گی اگر آج فیصلہ نہ ہوا تو کروڑوں لوگ پارٹی کے حقوق سے محروم رہ جائیں گے، ہمارے 8 لاکھ ووٹرز میں اعتراض کرنے والوں کے نام شامل نہیں-

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اعتراضات کرنیوالوں نے کہا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات پی ٹی آئی آئین کے مطابق نہیں،وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ انتخابات کالعدم قرار دینے کے بعد انتخابی نشان لے لیا گیا، پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد ہوں گے، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہوگی-

الیکشن کمیشن کے وکیل نے پشاور ہائیکورٹ سے بلے کے نشان کی واپسی کا کیس جمعرات تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ 13 جنوری کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں تو ایسے میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوسکتے ہیں؟ جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ علی ظفر صاحب اگر کیس کو پرسوں تک ملتوی کردیا تو آپ کو کیا نقصان ہوگا ؟

جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ 12 جنوری تک امیدوار کاغذات واپس لے سکیں گے، 13 کو نشانات الاٹ ہو رہے ہیں، جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ ٹھیک ہے ہم کیس کو سُنتے ہیں، دلائل جاری رکھیں،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے، بیرسٹر گوہر انتخابات کے نتیجے میں پارٹی چئیرمین منتخب ہوئے، بیرسٹر گوہر نے ریکارڈ پر دستخط کرکے الیکشن کمیشن کو دئیے،الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، اگر انٹرا پارٹی انتخابات نہ بھی کرائے جائیں تو الیکشن کمیشن کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن صرف ”ریکارڈ کیپر“ ہےلیکشن کمیشن کو 7 دن کے اندر سرٹیفکیٹ جاری کرنا لازمی ہے-

وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی انتخابات کا انعقاد نہ کرے تو جرمانہ ہوگا،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی پر کس قسم کا جرمانہ عائد کیا، جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ آپ بیٹ کیوں مانگ رہے ہیں، آپ کیا دلائل دیں گے، آپ کو ’’بلا‘‘ ہی کیوں چاہیئے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سیاسی جماعت کے پاس اختیار ہے کہ وہی نشان مانگے جس پر پہلے کبھی الیکشن لڑا ہو، سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق اگر کسی پارٹی سے انتخابی نشان لے لیا گیا تو پارٹی غیر فعال ہو جائے گئی، پارٹی نشان سیاسی کارکنوں کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے-

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان واپس لیا جانا پارٹی کو تحلیل کرنے مترادف ہے، آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی و غیرآئینی ہے کسی قانون میں الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہی نہیں، یہ اختیار شاید ہائیکورٹ کے پاس ہے، جس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ نہیں ہمارے پاس بھی نہیں ہے۔

یرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوئی کورٹ آف لاء نہیں، ایسے تنازعے کے حل کے لیے ٹرائل ضروری ہے، ایسے تنازعات میں سول کورٹ ہی ٹرائل کرسکتی ہے الیکشن کمیشن نے سمری میں فیصلہ کیا ہے۔

جس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ایسے میں تو پھر کیس الیکشن کمیشن کو ریمانڈ ہوگا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بالکل ریمانڈ ہوگا لیکن اگر الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہو, الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے صرف یہ اعتراض کیا کہ تعیناتی صحیح نہیں ہوئی انہوں نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے، اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

بیرسٹر علی ظفر نے مسلسل 2 گھنٹے دلائل دیے، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ چائے پی لیں، آپ نے سفر بھی کیا ہے، 3 بج کر 30 منٹ پر جمع ہوں گے،عدالت نے سماعت میں ساڑھے تین بجے تک وقفہ کردیا۔

Shares: