ہماری بربادی کے اسباب

جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا
blog

ہماری بربادی کے اسباب
از قلم غنی محمود قصوری

اللہ رب العزت نے ہمیں اشرف المخلوقات تو پیدا فرمایا ہی ہے مگر اس کیساتھ ہمیں اشرف الاخلاق،اشرف الجذبات بھی بنایا ہے تاکہ ہم پورے کے پورے دین اسلام کے پیروکار بنیں دیکھا جائے تو آج ہمارے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے حتی کہ آپ گاؤں دیہات میں نظر دوڑائیں تو دنیا کی تمام نعمتیں گاؤں دیہات تک پہنچی ہوئی ہے اگر آپ برگر پیزہ بھی گاؤں دیہات سے کھانا چاہے تو مشکل نہیں بہت سے گاؤں دیہات میں وہ بھی ملے گا اگر آپ مہنگی گاڑیاں اور مہنگے ترین مکانات بھی دیکھیں تو بھی یہ سب گاؤں دیہات میں موجود ہے جبکہ اس برعکس شہروں کی عکاسی آپ خود بخوبی کر سکتے ہیں-

آج پیسہ اور علم عام ہے مگر اس کے باوجود ہر انسان پریشان ہے باجود پیسے کے برکت کم ہے اور باوجود علم کے عمل کم ہے اس بارے کبھی ہم نے سوچا کہ آخر ایسا کیوں ہے ہمارے ساتھ ؟اس کی سب سے بڑی وجہ ناشکری اور ناقدری ہے آج جہاں ہمارے ہاں ناشکری ہے وہاں نعمتوں کی ناقدری بھی بہت ہے خاص کر علماء کرام کی ناقدری اور ان کی ناشکری ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا
لَايَشْكُرُ اللہَ مَنْ لَايَشْكُرُ النَّاس
جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا

واضح رہے کہ اسلام میں فرقہ پرستی نہیں ہے اس لئے ہمیں فرقہ پرستی سے بچ کر قرآن و حدیث کا ہی پیروکار بننا چائیے اور ہر مسلک کے علماء کرام کی عزت و تکریم کرنی چائیےچاہے عالم دین کسی بھی مسلک سے ہو اس کی بات اچھی لگے یاں بری اس کی عزت و تکریم عام انسان سے بڑھ کر ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق کسی کو کسی پہ فوقیت حاصل نہیں ماسوائے تقوی کے جس کا تقوی اور رب سے تعلق زیادہ ہو گا اس کی عزت و تکریم بھی زیادہ ہو گی

علمائے کرام کی تضحیک کرنا بہت بڑا گناہ ہے مُسند احمد و طبرانی کی کتب احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے اور آگے الفاظ ہیں کہ وَیَعْرِفُ لِعَالِمِنَا حَقَّہ یعنی جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت میں سے نہیں ہےحدیث پہ غور کریں تو احساس ہو گا آج ہم کس قدر اہل علم لوگوں بےقدری کر رہے ہیں خاص کر اپنے محلے کی مسجد کے امام صاحب کو ہر دکھ اذیت دینا ہم اپنا حق سمجھتے ہیں-

ہمارے معاشرے میں اپنی ذاتی خوشیوں کی خاطر ایک متوسط اور غریب شحض بھی ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتا ہے مگر خوشنودی اسلام اور محبت دین میں علماء پہ چند سو روپیہ بھی لگانے سے کتراتا ہےمیں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا کہ چند دن قبل گاؤں کی مسجد کا ایک امام صاحب مسجد کے صدر کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا کہ حضور مجھے مت نکالئے مسجد سے میرے بچے بھوکے مر جائیں گے مہنگائی بہت ہے میں کہاں جاؤں گا انہیں لے کر لہٰذہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں آج سے نماز سے پہلے مسجد میں آ جایا کرونگا اور چھٹی نہیں کرونگا-

جی ہاں قسم رب کی یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھااس امام صاحب کی ایک چھوٹی سی غلطی پہ مسجد کے صدر صاحب چیخ رہے تھے کہ جو اس جیسی سینکڑوں غلطیاں اس میں اور اس کی اولاد میں موجود ہیں مگر یہ کہ یہ امام مسجد اس کا محتاج بنا بیٹھا اور اس امام مسجد کے پاس اپنی طاقت نہیں کہ وہ اچھا سا کام کاروبار کرتا اور پھر اپنی مرضی سے مسجد میں آتا جاتا تاکہ نمازی اس کے انتظار میں رہتے-

ہمارے ہاں امام مساجد کی تخواہیں بہت کم ہیں شہروں میں پھر بھی 25 سے 40 ہزار تک ماہوار امام صاحبان کو ملتا ہے تاہم اس دور جدید میں بھی گاؤں دیہات میں امام مسجد صاحبان کو 15 سے 25 ہزار ماہوار دیا جاتا ہے اور اسے پابند بنایا جاتا ہے کہ آپ نے مسجد کی صفائی ستھرائی کیساتھ پانچ وقت کی اذان اور امامت کرنے کیساتھ خطبہ جمعہ و خطبات عیدین بھی فرمانے ہیں اس مہنگائی کی صورتحال میں یہ پیسے بہت کم ہیں اوپر سے ستم ضریفی یہ کہ گاؤں دیہات کے امام صاحبان کو فصلوں کے پکنے پہ فصل یاں پیسے دیئے جاتے ہیں باقی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی کہ باقی دنوں وہ بیچارہ کہاں سے کھائے گا اوپر سے جس شحض کا کہیں بس نہیں چلتا اس کا رعب مسجد کے مولوی پہ چلتا ہے-

صاحبان اللہ کے نبی کی حدیث کی حدیث ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور یہ علماء وہ ہیں کہ اللہ کے بعد جن کے وعظ و نصیحت سے نمازی،حاجی،مجاھد، مبلغ پروان چڑھتے ہیں سو اللہ کی رضا کی خاطر ان پہ رحم کریں ان کے کھانے پینے اور ان کی رہائش کا خاص اہتمام کریں کیونکہ نبیوں کے ان وارثان سے محبت کرکے ہم رب کی زیادہ خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں-

ہمارے ہاں کچھ علماء کرام بڑے صاحب حیثیت بھی ہوتے ہیں خدارا ان کو دیکھ کر مالی طور پہ کمزور علماءکو نظر انداز نا کیجئے کیونکہ معاشرے کا یہ واحد طبقہ ہے جو اپنے ساتھ ہوتی ناانصافی پہ احتجاج نہیں کرتا اور نا ہی اپنے فرائض سے بائیکاٹ کرتا ہے وگرنہ دیکھ لیجئے ہر شعبہ زندگی کے چھوٹے سے بڑے لوگوں نے اپنی یونین بنائی ہوئی ہے اور اپنے مطالبے کی خاطر اپنے شعبے کا بائیکاٹ کرکے اپنی بات منوا لیتے ہیں مگر شاید ہی آپ نے کبھی سنا ہو گا کہ کسی عالم دین نے احتجاج کرتے ہوئے نماز پڑھانے سے انکار کر دیا ہے

Comments are closed.