سربراہ جے یوآئی ف مولانا فضل الرحمان اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلقات میں میانہ روی اور اختلاف کو اختلاف تک رکھنا چاہتے ہیں-
چارسدہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ مدارس بل پر حکومتی اتحاد کے بدنیتی ظاہر ہو چکی ہے، صدر مملکت نے مدارس آرڈیننس ایکٹ پر دستخط کیے ہیں، مدارس آرڈیننس کو توسیع دی جار ہی ہے مگر قانون سازی نہیں ہو رہی، مدارس ترمیمی بل کے حوالے سے حکومت کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں، مدارس ترمیم بل کے حوالے سے فیصلہ وفاق المدارس اور تنظیمات مدارس کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ امن و امان اور شہریوں کے جان ومال کی ذمہ داری ریاست کی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کےجان و مال کی حفاظت کریں چار دہائیوں سے دہشت گردی کے واقعات ریاستی اداروں کا منہ چڑا رہے ہیں، چار گھنٹوں میں انڈیا کو لپیٹنے والی ہماری ریاست اتنی کمزور نہیں، سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ چار دہائیوں سے جاری دہشت گردی پر قابو کیوں نہیں پایا جارہا؟ ریاستی ادارے دہشت گردی کے خاتمہ کے حوالے سے سنجیدہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے عوام پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگا رہے ہیں،عوام نے سوات سے لے کروزیرستان تک چند گھنٹوں میں علاقے خالی کیے، آج بھی وہ لوگ اپنے ہی ملک میں مہاجر ہیں، سیکیورٹی ادارے ایک بار پھر عوام کو علاقے خالی کرنے کا کہہ رہے ہیں، ریاستی ادارے اپنی ناکامی کی ذمہ داری عوام پر نہ ڈالیں، ادارے اپنے گریباں میں جھانک اپنا امتحان لیں مگر یہاں تو ادارے ٹانگ پر ٹانگ ڈال کر عوام پر رعب ڈال رہے ہیں، ریاستی اداروں کا لب و لہجہ رعب والا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے ہر میٹنگ اور جرگہ میں عام لوگوں کو اپنے لہجے سے مرعوب کر رہے ہیں، ریاستی ادارے اپنا لب و لہجہ سیدھا کرلیں، ادارے ہمارے ساتھ انسان اور پاکستانی بن کر بات کریں، اداروں کے لوگ مافوق الفطرت نہیں ہیں اور نہ یہ عوام سے بالاتر ہیں، ریاستی اداروں کے لوگ ہماری طرح کے انسان ہیں اور ہمارا اور ان کا شناختی کارڈ ایک ہے، مجھے اس بات پر تشویش ہے کہ ریاستی ادارے جرگے بلاکر ان کو دھمکیاں دیتے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ موجودہ حالات کی ذمہ دار ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے عوام پر الزامات لگا رہے ہیں، خیبر پختون خوا میں اپوزیشن پارٹیاں ایک مخصوص نشست کے لیے عدالتوں میں جا رہی ہے، مسلم لیگ ن نے مخصوص نشست پر عدالت میں جے یو آئی کے خلاف کیس دائر کیا ہے، موجود ہ حالات میں مسلم لیگ ن کا یہ اقدام کس کو فائدہ دے گا؟ ایسی اپوزیشن کا میں کیا کرو ں جس کا ہر قدم صوبائی حکومت کے فائدے میں جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختون وا میں موجودہ اپوزیشن کے ساتھ ان حالات میں کیسے چلیں گے؟ہم معتدل سیاست کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، حکمران بھی ہمیں لچر زبان میں جوا ب اور گالیاں دے رہے ہیں، اپوزیشن جماعتیں بھی ہمارے خلاف عدالتوں میں جار ہی ہے، ایسی صورتحال میں خیبر پختون خوا میں عدم اعتماد کا سوچ غلط ہے۔
انہوں ںے کہا کہ افغانستان سے تعلقات بہتر بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم افغانستان کے خلاف پہلے کاروائی اور بعد میں بات چیت شروع کرتے ہیں، افغانستان کے خلاف کارروائی سے تلخیاں پیدا ہوتی ہے اور مذاکرات کا ماحول ختم ہو جاتا ہے، میثاق جمہوریت پر ہم ایک بار ہاں کر چکے ہیں، جے یو آئی آج بھی میثاق جمہوریت پر قائم ہے، اگر سیاست دان میثاق جمہوریت پر عمل کریں تو ایک بہتر ماحول پیدا ہو سکتا ہے میں پی ٹی آئی کے ساتھ اختلاف ختم نہیں کررہا لیکن تعلقات کو بہتر بنانا میرے مقاصد میں سے ہے، میں پی ٹی آئی سے اختلاف کو اختلاف کی حد تک رکھ کر تلخیوں کو دور کرنا چاہتاہوں، میں پی ٹی آئی کی تلخی اور بداخلاقی پر کوئی جواب نہیں دینا چاہتا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا جواب ان سے پوچھ لیں اس غیر معقول سوال کا جواب میں کیوں دوں؟ میں نے خیبر پختو خوا میں عدم اعتماد کی بات پی ٹی آئی کے خلاف نہیں کی، میں نے مشورہ دیا ہے کہ صوبے میں تبدیلی کی ضرورت ہے، میں نے پی ٹی آئی کے اندر تبدیلی لانے کی بات کی ہے، میں نے اپوزیشن کی سودا بازیوں اور ارکان توڑنے کے بجائے پی ٹی آئی کے اندر نئی ایڈمنسٹریشن کی بات کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں خیبر پختونخوا سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتا، آج بھی کہتا ہوں کہ اس صوبے کی اکثریت جعلی ہے، پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے اور عدالت نے تسلیم بھی کیا ہے، ساری دنیا پی ٹی آئی کی حکومت مان رہی ہے ،اس میں ہم کچھ نہیں کرسکتے، تاریخ فیصلہ کرے گی کہ مینڈیٹ چوری کے حوالے سے ہمارا دعویٰ غلط یا درست ؟-