خون کی قیمت پر مہمان نوازی، اب افغانوں کی واپسی ناگزیر
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کا حالیہ بیان ایک طویل عرصے سے جاری دیرینہ تکلیف کو کھول کر سامنے لے آتا ہے۔ اُنہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ افغان مہاجرین کی ستر سالہ مہمان نوازی کی قیمت ہم اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے گھر واپس جائیں۔ یہ صرف جذبات نہیں بلکہ ایک سادہ اور سخت پیغام ہے کہ برداشت کی حد پار ہو چکی ہے۔ قومی اسمبلی میں اُن کی تنبیہ تھی کہ دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ ناقابلِ قبول ہوگا اور پناہ دینے والوں کو حساب دینا پڑے گا۔ ریاست کی بنیادی ذمہ داری "اپنے شہریوں کا تحفظ سب سے اوّل ہے”۔
2021 کے بعد ٹی ٹی پی نے اپنی سرگرمیاں بڑھا دیں کیونکہ انہیں افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے میسر آئے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت ٹی ٹی پی کو بھائی سمجھتی ہے، انہیں ہتھیار، تربیت اور پناہ گاہیں فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے بارہا مطالبہ کیا گیا کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی روکی جائے، مگر عملی نتائج ناکافی رہے۔ اس تناظر میں بھارتی عنصر کا ذکر بھی سامنے آتا ہے کیونکہ پاکستانی انٹیلی جنس اور حکام بعض کارروائیوں کے پیچھے بھارتی مداخلت یا پراکسی وار کی نشاندہی کرتے ہیں، دعویٰ کرتے ہوئے کہ بھارت "را” کے ذریعے مالی امداد، ہتھیار اور رہنمائی فراہم کر رہا ہے تاکہ اندرونی کمزوری پیدا کی جا سکے۔
2025 میں حملوں میں اضافے کے تناظر میں پاکستان نے یہ محسوس کیا کہ بھارت اور افغانستان "انسانی حقوق” کے پردے تلے اپنی حکمتِ عملی چلاتے ہیں۔ اسی پس منظر میں امیر خان متقی کا بھارت کا دورہ جو 9 اکتوبر 2025 کو نئی دہلی پہنچ کر چھ روزہ قیام پر ہیں اور جہاں وہ بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سے ملے ،جو دہشت گردی اور گٹھ جوڑ کی ایک کڑی محسوس ہوتا ہے۔ 2021 کے بعد یہ پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ ہے اور اس کا پیغام پاکستان کے لیے کوئی اچھا نہیں، خصوصاً جب اسی عرصے میں پاکستان نے افغان مہاجرین کے خلاف "بڑی کارروائی” کا عندیہ دیا۔ متقی کا روس کے بعد پاکستان آنے کے بجائے بھارت جانا پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ خواجہ آصف کا پیغام کال ٹو ایکشن بن چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بیانات، گذشتہ دورِ حکومتوں کی پالیسیاں اور مباحث بھی اس بحث کا حصہ ہیں کہ عمران خان کے دور میں ہونے والے اقدامات، پی ٹی آئی کی بعض پالیسیوں پر تنقید اور مذاکراتی رویے کے تضاد نے ماحول کو مزید حساس بنا دیا ہے۔
اس دوران ایک اور خطرناک پہلو سامنے آتا ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے کاروبار، جو بظاہر معمولی نظر آتے ہیں، اصل میں دہشت گردوں کے رابطے یا مالیاتی راستے ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک بھر میں کئی شہروں میں ایسے چائے خانے ہیں جو عام لوگوں کے لیے "کوئٹہ ہوٹل” کے نام سے معروف ہیں۔ بظاہر معمولی کاروبار دکھائی دیتے ہیں، مگر سیکیورٹی ذرائع اور مقامی رپورٹس کے مطابق یہ بہت سی صورتوں میں سلیپر سیلز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی چائے خانے اور لنڈا کے کاروباروں کی آڑ میں منشیات، اسلحہ، دہشت گردی اور اسمگلنگ کے سلسلے چلتے ہیں۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں نظرانداز شدہ رابطے، رقم کی ترسیل اور چھوٹے چھوٹے سامان کے ذریعے غیرقانونی نقل و حمل کا جال بنتا ہے۔
ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ ان چھوٹے کاروباروں پر فوکس کریں، ان کا ڈیٹا اکٹھا کریں، کاروباری لائسنس اور شناختی کارڈ چیک کریں، کرایہ داروں اور مالکان کا پس منظر دیکھیں اور اگر ضرورت ہو تو مقامی سطح پر ڈیٹا بیس بنائیں تاکہ شناختی روابط سامنے آ سکیں۔ جب ان چائے خانوں اور لنڈا کے ٹھیکوں کا اچھی طرح جائزہ لیا جائے گا تو اکثر صورتوں میں افغان شہریوں اور ان سے جُڑے عناصر کی کڑیاں ملنا مشکل نہیں رہے گی۔اس وقت اہم کام یہ ہے کہ ادارے مل کر ایک واضح لائحہ عمل بنائیں، مقامی سطح پر کوئٹہ ہوٹل جیسے مشکوک تجارتوں کا نقشہ تیار کیا جائے، ریڈ کے مطابق کارروائیاں ہوں.
اس کے علاوہ سفارتی محاذ پر بھی متحرک ہونا پڑے گا ، افغان حکومت سے واضح مطالبات، سرحدی نگرانی میں اضافہ اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ لازمی ہے۔بھارت اور کسی بھی بیرونی فریق کی مداخلت کے الزامات کو سنجیدہ لینا چاہیے اور مناسب ثبوت کے ساتھ بین الاقوامی فورمز پر پوری توانائی کے ساتھ آواز اٹھانا چاہیے،
دوسری طرف اگر مہمان نوازی قومی جان و مال پر بجلی کی ننگی تار بن جائے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ مہمان نوازی آخر کس قیمت پر جاری رکھی جائے؟ وزیرِ دفاع کا بیان دراصل بیداری کا پیغام ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ قوم اور ریاست مل کر یہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنے گھر، اپنی سرحد اور اپنی عوام کا تحفظ کس طرح یقینی بنائیں۔ میزبان کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر کی حفاظت کرے، لیکن خون کی قیمت پر مزید مہمان نوازی کسی صورت قبول نہیں کی جا سکتی۔
جنہوں نے 1979 سے اب تک پاکستان کا کھایا، یہاں پناہ لی اور پھر اسی ملک کے ازلی دشمن کے ساتھ ہاتھ ملا کر ہمارے ہی خون سے زمین سرخ کی، وہ اب کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ انسانی حقوق کا راگ بہت الاپا جا چکا مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانیوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں؟ کیا انسانی حقوق صرف ان افغان دہشت گردوں کے لیے ہیں جو بھارت کے ایماء پر پاکستان میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں؟ اب خون کی قیمت پر مہمان نوازی ناقابلِ برداشت ہے اور افغانوں کی واپسی ناگزیر ہو چکی ہے۔