لاہور(باغی ٹی وی انویسٹی گیشن سیل)کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی، عدلیہ سے نکالے گئے سابق جج کی بدولت ڈیرہ نواب کالج کیسے تباہ ہوا؟، ڈیرہ نواب گریجویٹ کالج کی تباہی کی ہوشرباء داستان کی پہلی کڑی
ڈیرہ نواب صاحب کا گورنمنٹ صادق عباس گریجویٹ کالج، جو کبھی علاقے میں تعلیمی معیار کی بلندی کا نمونہ تھا، آج کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی کی مثال بن چکا ہے۔ اس تمام تر خرابی کا مرکزی کردار سابق سول جج محمد شاہد سراج ہیں، جنہیں عدلیہ سے نکالے جانے کے بعد بطور انچارج پرنسپل تعینات کیا گیا۔ اس تعیناتی نے نہ صرف ادارے کے تعلیمی ماحول کو برباد کیا بلکہ بدعنوانی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
عدلیہ سے نکالے جانے کی وجوہات
محمد شاہد سراج کو لاہور ہائی کورٹ نے ناقص کارکردگی اور مس کنڈکٹ کی بنیاد پر عدلیہ سے نکال دیا۔ عدالت کے حکم کے مطابق ان کی پروبیشن کی مدت پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974 کے تحت ختم کی گئی، اور انہیں عدالتی خدمات میں دوبارہ شامل ہونے سے ہمیشہ کے لیے روک دیا گیا۔
پرنسپل بننے کے بعد بدعنوانی کے نئے ریکارڈکالج میں بطور انچارج پرنسپل تعینات ہونے کے بعد شاہد سراج نے اپنی پوزیشن کا ناجائز استعمال
کرتے ہوئے کئی غیر قانونی اقدامات کیے:1۔فنڈز کی خورد برد:شاہد سراج نے امتحانی فیس اور رجسٹریشن فنڈز میں خرد برد کی۔ ایک مثال کے طور پر، انہوں نے 28 مارچ 2024 کو چیک نمبر 8806943924 کے ذریعے دو لاکھ چونسٹھ ہزار روپے نکلوائے، جس میں سابق وائس پرنسپل کے جعلی دستخط شامل تھے۔ یہ رقم نہ تو کالج ریکارڈ میں ظاہر کی گئی اور نہ ہی اس کا کوئی مستند ووچر موجود ہے۔
2۔ اقربا پروری کی انتہا:کالج ٹیچنگ انٹرن (CTI) کے طور پر اپنی بیٹی عائشہ ارم کو میرٹ پالیسی کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بھرتی کیا۔ عائشہ ارم میرٹ لسٹ میں 51ویں نمبر پر تھیں، لیکن انہیں ایسے امیدواروں پر فوقیت دی گئی جو میرٹ لسٹ میں اوپر تھے۔ مزید برآں، انٹرویو کے دوران شاہد سراج نے خود اپنی بیٹی کا انٹرویو لیا، جو ایک واضح تضاد اور بدعنوانی کا ثبوت ہے۔
3۔ امتحانات میں غیر قانونی مداخلت :شاہد سراج نے اپنی بیٹی فاطمہ شاہد، جو بی ایس کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں، کے امتحانات کے دوران خود انویجیلیٹر (RI) کے طور پر خدمات انجام دیں۔ یہ ایک غیر قانونی اقدام ہے کیونکہ قریبی عزیز کے امتحانات میں شامل ہونے پر کسی بھی سرکاری افسر کو نگرانی کی اجازت نہیں دی جاتی۔
4۔سیکنڈ شفٹ میں غیر قانونی بھرتیاں:بارہ طلبہ و طالبات کو سیکنڈ شفٹ(ایوننگ کلاسز)میں داخلہ دیا گیا، جو کبھی کالج نہیں آئے۔ ان طلبہ سے فی کس 45 ہزار روپے وصول کیے گئے، جو سیدھے شاہد سراج کی جیب میں گئے۔ اس عمل نے محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی کی۔
5۔طلبہ اور اساتذہ کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھنا:کالج میں پینے کے پانی کی سہولت ناپید ہے، جس کی وجہ سے طلبہ و طالبات اور اساتذہ موٹر کے ذریعے پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ، دو سالوں سے کالج میگزین شائع نہیں کیا گیا اور سالانہ کھیلوں کا انعقاد بھی نہیں ہوا۔تحقیقات اور شکایات کا نتیجہ صفرشاہد سراج کے خلاف متعدد شکایات دی گئیں، لیکن ان پر کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔
شہریوں اور طلبہ کی جانب سے دی گئی درخواستوں کو یا تو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا یا پھر اعلی افسران کی ملی بھگت کی وجہ سے دبایا گیا۔
سابق ڈائریکٹر کالجز اور موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر بہاولپور تسلیم عالم نے شاہد سراج کے حق میں تعریفی خطوط جاری کیے، جو حقیقت کے بالکل برعکس ہیں۔
حکومت اور متعلقہ اداروں کی بے بسی:
شاہد سراج کی کرپشن اور بدعنوانی کے باوجود، نہ تو صوبائی وزیر ہائیر ایجوکیشن اور نہ ہی انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شاہد سراج کو بااثر مافیاء کا تحفظ حاصل ہے۔
دوسری طرف جب شاہد سراج سے ان کا مئوقف لینے کیلئے ان کے موبائل فون پر رابطہ کیا تو موصوف نے اس سارے معاملے کو من گھڑت قرار دینے کی کوشش کی اور اپنی بے گناہی اور ہونے والی کارروائی کے ثبوت دینے کا وعدہ کیا لیکن شاہدسراج نے کچھ ڈاکومنٹس وٹس ایپ پر بھیج کر فوراََ ڈیلیٹ کر دئے ،کیونکہ انہیں خدشہ لاحق ہوگیا کہ اب واقعی کچھ ہونے والا ہے اور اس کے علاوہ شاہدسراج سے باغی ٹی وی کی ہونے والی موبائل فون پر بات چیت کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے
کالج کا مستقبل دا ئوپرگورنمنٹ صادق عباس گریجویٹ کالج، جو ایک تاریخی ادارہ ہے، بدعنوانی کی اس کہانی کا سب سے بڑا شکار ہے۔ طلبہ کا مستقبل خطرے میں ہے اور والدین اور شہری اس صورتحال پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن کرپٹ پریکٹس کے مرتکب سنیارٹی میں تیسری پوزیشن والے شخص کے خلاف باغی ٹی وی نے جہادکا علم بلند کردیا ہے اور ڈیرہ نواب صاحب کا گورنمنٹ صادق عباس گریجویٹ کالج میں ہونے والی بے قاعدگیاں اورسابق سول جج اور موجودہ پرنسپل کی کرپشن کی ہوشرباء داستان مکمل تفصیل اور ثبوتوں کے ساتھ منظرعام پرہرخاص وعام کے سامنے لارہا ہے ۔