تاریخ گواہ ہے کہ سنہ 1979 تک اسرائیل اور ایران کے درمیان تعلقات انتہائی خوشگوار تھے ۔ ان تعلقات میں دراڑ انقلاب ایران کے بعد آئی ۔ 1948 میں جب عالمی طاقتوں نے فلسطین کی تقسیم کا منصو بہ پیش کیا تو ایران نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی ایران کی مخالفت کے باوجود عالمی طاقتوں نے اپنے اس منصوبے پر عملدرآمد کیا اور یوں 1948 میں اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی مصر کے بعد ایران وہ دوسرا اسلامی ملک تھا جس نے اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کیا تھا۔اس وقت ایران میں پہلوی خاندان کی بادشاہت تھی ۔

پہلوی خاندان مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اہم اتحادیوں میں شامل تھا۔ اسرائیل کے پہلے سربراہ ڈیوڈ بین گورین نے پڑوسی عرب ریاستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جب ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو شاہ ایران نے فوراً اسرائیل کو گلے سے لگا لیا۔ سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انقلاب نے شاہ کا تختہ الٹ دیا ۔ایران کی اس نئی حکومت نے نہ صرف امریکا کی مخالفت کا نعرہ بلند کیا بلکہ امریکا کے اتحادی اسرائیل کو مسترد کرنے کا اعلان بھی کیا۔ نئی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لیے۔اسرائیلی شہریوں کے پاسپورٹ کو تسلیم کرنا بند کر دیا تہران میں اسرائیلی سفارت خانے پر قبضہ کر کے اسے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے حوالے کر دیا۔ پی ایل او اس وقت اسرائیلی حکومت کے خلاف فلسطینی ریاست کی قیادت کر رہی تھی وقت گزرتا گیا اور اسرائیل کے خلاف دشمنی نئی ایرانی حکومت کی شناخت بن گئی۔

نئے ایران نے خود کو ایک اسلامی طاقت کے طور پر پیش کیا اور اسرائیل کے خلاف فلسطینی مسئلے کو اٹھایا جسے عرب مسلم ممالک بھول چکے تھے ۔ان دنوں تہران میں حکومتی سرپرستی میں فلسطین کے حق میں مظاہرے معمول بن چکے تھے لیکن اس کے باوجود نوے کی دہائی تک اسرائیل نے کبھی ایران کو اپنا دشمن تسلیم نہیں کیا تھا۔کیونکہ اس وقت تک صدام حسین کے عراق کو بڑا علاقائی خطرہ سمجھا جاتا تھا۔

سنہ 1980 سے 1988 کے درمیان جب ایران عراق جنگ جاری تھی تب اسرائیلی حکومت نے "ایران ۔کنترا” کے نام سے مشہور ایک خفیہ پروگرام کو ممکن بنایا۔ اسرائیل نے اس پروگرام کے ذریعے ایران کو عراق کیخلاف لڑنے کیلئے جدید امریکی اسلحے کی فراہمی یقینی بنائی ۔عراق میں صدام حسین کا اقتدار ختم ہوتے ہی اسرائیل نے ایران کو اپنے وجود کے لیے ایک اہم خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ۔ کچھ ہی عرصے میں دونوں کے درمیان دشمنی زبانی جنگ سے نکل کر حقیقی جنگ تک چلی گئی۔ اسی دور میں اسرائیل اور ایران کے درمیان ایک "شیڈو وار” کا آغاز ہو ا جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ۔ اس حکمت عملی کے تحت ایران اور اسرائیل سامنے آئے بغیر دوسرے ممالک میں ایک دوسرے کے مفادات پر حملے کر رہے ہیں۔

ایران اس بات سے آگاہ ہے کہ وہ سنی عرب اسلامی دنیا میں واحد فارسی شیعہ ملک ہے انقلاب کے بعد ایران کو خدشہ تھا کہ ایک دن اس کے دشمن اس کی سرزمین پر حملہ کر دیں گے ۔ اپنی تنہائی کے احساس کے پیش نظر ایرانی حکومت نے ایک حکمت عملی تیار کرنا شروع کی اس حکمت عملی کے تحت پورے خطے میں تہران کے ساتھ منسلک عسکری تنظیموں کا مضبوط نیٹ ورک قائم کیا گیا ۔ ان تنظمیوں میں لبنان کی حزب اللہ سب سے نمایاں ہے جس نے ایرانی مفادات کے تحفظ کیلئے کئی بڑی فوجی کارروائیاں کی ہیں ۔ آج اس ” ایرانی مزاحمت” کا محور‘ لبنان، شام، عراق اور یمن تک پھیلا ہوا ہے۔

اسرائیل بھی اس عرصے میں خاموش نہیں بیٹھا رہا اس نے ایران اور اس کے اتحادیوں پر کئی بار حملے کیے ۔اس نے بھی خطے میں ایران مخالف مسلح گروہ کھڑے کئے ۔ ان کی مالی معاونت کی ، انہیں ہتھیار اور عسکری تربیت بھی فراہم کی ۔ اس شیڈو وار حکمت عملی کے تحت ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے پر کئی بار حملے کئے ۔ لیکن دونوں ممالک نے ان حملوں میں شرکت کا باضابطہ اعتراف کبھی نہیں کیا۔

ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنا ہمیشہ سے اسرائیل کا جنون رہا ہے ۔ وہ شروع دن سے ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنا چاہتا ہے ۔اسرائیل ایران کے اس موقف پر یقین نہیں کرتا کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے ۔ ماضی میں اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ مل کر "سٹکسنیٹ” نامی ایک کمپیوٹر وائرس تیار کیا تھا ۔اس وائرس کے ذریعے اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر خوفناک سائبر حملہ کیا اور انہیں شدید نقصان پہنچایا۔ اسرائیل نے کئی بار ایران کے جوہری سائنسدانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے ۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ قابل ذکر واقعہ محسن فخری زادہ کا سنہ 2020 میں قتل تھا۔ فخری زادہ کو ایرانی جوہری پروگرام کا ستون کہا جاتا تھا۔ اسرائیل کی حکومت نے کبھی بھی ایرانی سائنسدانوں کی ہلاکت میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا۔
دوسری جانب اسرائیل پر جب بھی کوئی ڈرون حملہ ہوتا ہے یا اس کی سرزمین پر کوئی راکٹ داغا جاتا۔ اسے ان حملوں کے پیچھے ہمیشہ ایران کھڑا نظر آتا ہے ۔ اسرائیل نے کئی بار ایران پر سائبر حملوں کے الزامات بھی عائد کئے ہیں ۔سنہ 2011 میں شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی اسرائیل اور ایران کی اسی محاذ آرائی کا نتیجہ تھی ۔مغربی انٹیلیجنس ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران نے صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے باغیوں کے خلاف لڑنے کیلئے رقم، ہتھیار اور انسٹرکٹر بھیجے ۔ ایران کے اس اقدام کو اسرائیل نے اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھا ۔ وہ ایک عرصے سے دعویٰ کرتا چلا آ رہا ہے کہ ایران شام کے راستے لبنان میں حزب اللہ کو اسلحہ اور دیگر سازوسامان پہنچا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے اسرائیل اور ایران دونوں نے شام میں متعدد کارروائیاں کیں جن کا مقصد ایک دوسرے کو بڑے پیمانے پر حملے کرنے سے باز رکھنا تھا۔

یہ ’شیڈو وار‘ سنہ 2021 میں زمین سے سمندر تک پہنچ گئی۔ اس سال خلیج عمان میں اسرائیلی جہازوں پر حملہ ہوا۔ اسرائیل نے ان حملوں کا الزام ایران پر لگایا ۔ اس کے بعد بحیرہ احمر میں ایرانی جہازوں کو نشانہ بنایا گیا جس پر ایران نے اسرائیل کو موردالزام ٹھہرایا۔سات اکتوبر کو حماس نے جب اسرائیل کے خلاف حملوں کا آغاز کیا۔ تب سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ تنازع خطے میں ایک سلسلہ وار ردعمل کو ہوا دے گا۔ اور پھر ایک دن ایسا آئے گا جب ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست ٹکرائو ہوگا ۔ آج یہ خدشات حقیقت میں بدل چکے ہیں۔غزہ،شام اور لبنان کے بعد اسرائیل اب تہران پر حملہ آور ہے ۔

اسرائیلی حملے سے پہلے بہت سے تجزیہ کار سمجھ رہے تھے کہ حماس کے برعکس ایران ایک ریاست ہے اور بہت طاقتور ریاست ہے ۔ لیکن جس طرح اسرائیل نے پہلی اسٹرائیک میں ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت ، ایٹمی تنصیبات اور جوہری سائنس دانوں کو نشانہ بنایا ہے اس سے ایران کی عسکری صلاحیتوں کا کچھ کچھ اندازہ ہو رہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے لیکن عالمی پابندیوں کی وجہ سے وہ ایک عرصے سے معاشی مسائل کا شکار بھی ہے ۔ ان چیلنجز کے ساتھ ساتھ ایرانی حکومت کو عرصہ دراز سے ایک داخلی بحران کا سامنا بھی ہے ۔ حماس اور حزب اللہ میں اب وہ طاقت نہیں رہی کہ وہ اسرائیل کو کوئی نقصان پہنچا سکیں۔

شام میں”الاسد خاندان” ایران کا اہم اتحادی تھا لیکن آج کل وہ خود پوری دنیا میں پناہ کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے ۔ روس ایران کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے لیکن وہ تو خود یوکرین میں پھنسا ہوا ہے ۔ ان حالات میں مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے خطے میں کچھ اہم اور بڑی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شام میں بھی ایک کھیل کھیلا گیا تھا۔ وہی کھیل اب ایران میں شروع کرنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ دیکھتے ہیں ایران اسرائیل کی اس جارحیت کا جواب کیسے دیتا ہے ۔؟

Shares: