کہا جاتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کی ہر بات ماننے کیلئےمجبور ہے ، کیوں اور کیسے امریکہ اسرائیل کی یرغمالی میں آجاتا ہے؟آئیے جانتے ہیں آج یو ایس کا پارلیمنٹ، کارٹونز، فلمیں ، تعلیمی ادارے آج سب جیوش اور اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں ،یو ایس کی ٹاپ یونیورسٹیز کے بیس فیصد پروفیسرز، ٹاپ کی چالیس فیصد فرم اور انڈسٹری کے ملازمین، انسٹھ فیصد مصنف اور ڈائریکٹر، پچاس فیصد دانشور جیوش ہیں۔
آپ نے کبھی محسوس کیا کہ جن چیزوں کیلئے امریکہ دوسرے ملکوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے،انہی چیزوں کیلئے اسرائیل امریکہ کو مذاکرات کے ذریعے مجبور کر کے اپنا کام کروا لیتا ہے، بیشک موجودہ ایران اسرائیل جنگ ہو یا یمن سعود ی جنگ میں امریکہ کے ذریعے اسرائیل کا تسلط، شام ہو یا عراق، مصر ہو یا یمن، لبنان ہو یا فلسطین ۔۔۔ کسی بھی جگہ اسرائیل امریکہ کی پناہ میں نہیں آیا ، بلکہ امریکہ کو ہر جنگ شروع کروانے کیلئے اسرائیل کی ضرورت پیش آتی رہی، آج جب ٹرمپ آیا تو جنگیں بند کروانے کا سہرا اپنے نام کر رہا ہے۔
یو ایس نے سعودی عرب سے یمن وار میں یہ کہہ کر سپورٹ واپس لے لی تھی کہ اس وار میں لاکھوں لوگ مارے جا رہے رہیں،لیکن یہاں پر اگر نقطہ دیکھا جائے تو پوری دنیا کے پریشر کے باوجود امریکہ جنگ بندی معاہدے پر ابھی تک عمل نہیں کروا سکا۔ جبکہ ٹرمپ کو ایک روز خود اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہو کر کہنا پڑا تھا کہ امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھالے گا، اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ امریکہ اسرائیل کو استعمال کر رہا تھا بلکہ یہاں واضح نظر آیا کہ اسرائیل امریکہ کو استعمال کر چکا تھا ۔صدر ٹرمپ آج کہہ رہے ہیں کہ میں جنگیں بند کروا چکا ہوں اور دنیا میں امن میرے دور میں آئے گا، جبکہ جوبائیڈن نے کہا تھا کہ غزہ فلسطین کا واقعہ کوئی جینو سائیڈ (نسل کشی ) نہیں ہے۔
اسرائیل کیسے امریکہ کو کنٹرول کرتا ہے یہ چیز قابل توجہ اور سمجھنے والی ہے، ایک اسرائیلی این جی او ہے جس کا مالک (STEVE J. ROSEN سٹیو ۔ جے ۔ روزن ہے) سٹیو ۔ جے۔ روزن نے کہا تھا کہ میں اگر خالی رومال بھی دوں تو امریکی ستر ایم پی ایز چوبیس گھنٹے سے پہلے مجھے دستخط کر کے دے دیں گے ، یہ بات ایک اسرائیلی این جی او کا چیف کہہ رہا تھا ۔
اسرائیل کا امریکہ میں اس قدر ہولڈ ہے کہ اسرائیل این جی او ز امریکہ میں اسرائیل مخالف رکن ہو امریکہ میں ہی الیکشن ہروا دیتے ہیں اور سب سے اہم بات کہ اس بات کو وہ ٹویٹر جیسے پلیٹ فارم پر بتا بھی دیتے ہیں اور امریکہ نیتن یاہو کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے بڑی اچھی حکتِ عملی کے ساتھ اپنی لابی ڈپلو میسی بنا کر رکھی ہوئی ہے،اسرائیل نے امریکہ کی یونیورسٹی سے لیکر میڈیا تک اور انڈسٹری سے لیکر یوایس گورنمنٹ تک اپنا ایسا پروپیگنڈا کرنے والا دماغ بٹھا کر رکھا ہوا ہے۔ مشہور کارٹون سپر بُک دیکھیں تو اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اور یہودی تاریخ بہت اعلیٰ ہے، سپر بک کارٹون سیریز کا ایپی سوڈ چوبیس دیکھیں تو اس میں بتایا گیا ہے کہ یروشلم میں آغاز سے ہی جیوش رہا کرتے تھے جن پر بہت زیادہ ظلم ہوا ، تو اس لیے اس سیریز کا مین کیرکٹر گریٹ وال آف چائنا جیسی دیوار بنانے کا آغاز کرتا ہے جو دیوار یہودویوں کی حفاظت کرے گی۔دوسری ایک مشہور سیریز (The prince of egypt)ہے۔ دی پرنس آف اجپت سیریز میں بتایا گیا ہے کہ مصر کا راجا جیوش کو بچاتا ہے، اور پھر اس سیریز میں مین کردار آ کر مصر میں یہودیوں کو دوبارہ رہنے کی اجازت دلواتا ہے، یہ سب کارٹونز میں امریکہ میں دکھایا جا ہے ، یعنی اسرائیل اور یہودیوں نے شروع سے ہی امریکن کے دماغوں میں نرم رویہ اسرائیل کو لیکر دکھایا تاکہ کل کو کوئی مسئلہ بھی در پیش آجائے تو امریکن کو یہی لگے کہ اسرائیل اور یہودی بہت اچھے ہیں اور امریکنز کی ہمدردی ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ ہو گی۔
امریکہ کی یونیورسٹیوں کے سلیبس میں اسرائیل کا بیانیہ اور اینگل دکھایا جاتا ہے، ہر کوئی امریکن یا امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والا ہے وہ اسرائیل یا یہودیوں کو ہر معاملے میں ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پبلیکشن ہاؤسز جیوش کی ہسٹری، یروشل کی ہسٹری، جیوش کے پراسیکیوشن کی کہانیاں ریگولرلی پبلش کرتے رہتے ہیں، اور رپورٹ کیمطابق اس سب پروپیگنڈا کے پیچھے جو آرگنائزیشن ملوث ہے اس کا نام (institute of curriculm services) ہے۔
اسی طرح فلم انڈسٹری پر، ہالی ووڈ اس وقت اربوں بلین ڈالرز کی انڈسٹری ہے جہاں فنڈنگ کا اہم کردار ہوتا ہے، ہالی ووڈ فلمیں تو پوری دنیا میں دیکھی جاتی ہیں اگر اس میں فنڈنگ کے ذریعے پروپیگنڈا کر لیا تو ایک سوپچانوے مما لک میں آپ کا بیانیہ پہنچ جائے گا، انیس سو ساٹھ میں ایک فلم آئی جس کا نام تھا ایکسوڈس(۔Exodus)تھا ۔ اس فلم میں ورلڈ وار ٹو کے بعد جیوش مہاجرین کی فلسطین پہنچنے کی کوشش کو دکھایا گیا ہے، یہ فلم اسرائیل کے جنم کی کہانی کو بھی بیان کرتی ہے، پھر دو ہزار پانچ میں ایک فلم آئی جس کا نام Munichتھا۔۔ اس فلم میں ایک کہانی بتائی گئی جب انیس سو بہتر میں میونک اولمپکس کیلئے اسرائیل کے آٹھ کھلاڑی گئے تھے جن کو ایک فسطین کے جہادی گروپ نے مار دیا تھا ، اس فلم میں بتایا گیا کہ کیسے اسرائیل پھر اس دہشت گرد گروپ سے اپنا بدلہ لیتا ہے، کیونکہ اس فلم میں اسرائیل فلسطین اور جیوش مخالف ہر شخص کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔میڈیا میں بھی اسرائیل کا اچھا خاصا کنٹرول ہے، غزہ اسرائیل وار میں بھی اموات کی تعداد کم بتائی جاتی رہی، ا مریکہ کے بڑے سے بڑے نیوز اخبارات کے جو ٹاپ لکھاڑی ہیں ان میں اکسٹھ پرو اسرائیلی ہیں،ٹاپ تھری نیوز کمپنیز کے مالک جیوش ہیں، یہ تاریخی حوالوں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا جس سے امریکہ اور اسرائیل دہائیوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔
نوٹ:لکھاری علی رضا گورنمٹ کالج لاہور کے اسکالر ہیں جو مختلف اخبارات میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آپ مختلف بڑے نجی چینلز کے ساتھ کام کرچکے ہیں جو بین الاقوامی اور تایخی موضوعات پر خاصی مہارت رکھتے ہیں










