آن لائن دنیا میں ہر لمحہ کچھ نیا اور حیران کن ہو رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ایک انتہائی خطرناک رجحان سامنے آیا ہے، جو نوجوانوں، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے شدید خطرے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ "کام” (Com) نامی آن لائن گروہوں کی ایک ایسی شیطانی دنیا ہے، جہاں نوعمر لڑکے ایک دوسرے سے زیادہ سفاک اور ظالمانہ بننے کی دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں۔
جو* نامی ماں کو ایک سال تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کی بیٹی میری* "کام” کے چنگل میں پھنس چکی ہے۔ میری کو دھوکہ دے کر خود کو نقصان پہنچانے اور بچوں کے جنسی استحصال کے مواد بھیجنے پر مجبور کیا گیا۔ جو کے مطابق، اس ظلم نے میری پر خوفناک اثر ڈالا، وہ نیند سے محروم ہو گئی، دوستوں سے الگ تھلگ ہو گئی اور اس کا وزن تیزی سے کم ہونے لگا۔جو تمام والدین کو اس خطرے سے آگاہ کرنا چاہتی ہیں اور ان کا مشورہ ہے کہ بچوں کو انٹرنیٹ تک رسائی دینے میں دیر کریں اور زیادہ سے زیادہ پیرنٹل کنٹرولز کا استعمال کریں۔
آن لائن گینگز کے بھیانک حربے
"کام” ان بچوں کو نشانہ بناتا ہے جو جذباتی طور پر کمزور ہوتے ہیں، انہیں دھوکہ دے کر گھناؤنے مطالبات کیے جاتے ہیں، اور پھر دھمکیاں دے کر مزید خطرناک مواد مانگا جاتا ہے۔ میری بھی اسی جال میں پھنس چکی تھی۔
جو نے بتایا کہ "میں خوفزدہ تھی کہ اگر میں اس کا موبائل لے لوں گی تو وہ خودکشی کر لے گی، اس لیے میں نے اکثر اس پر یقین کرنے کا فیصلہ کیا۔”
یہ گینگ کیسے کام کرتے ہیں؟
"کام” کے پیچھے کوئی ایک لیڈر نہیں ہے بلکہ یہ مختلف گروہوں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) کے مطابق، ان گروہوں میں زیادہ تر نوعمر لڑکے شامل ہیں، جو سائبر کرائم، فراڈ، مالویئر اٹیک اور جنسی استحصال جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہیں۔این سی اے کے ڈائریکٹر جیمز بیبج کے مطابق: "ہم نے دیکھا ہے کہ ہزاروں صارفین لاکھوں پیغامات میں جسمانی اور جنسی تشدد پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ ایک تیزی سے بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔”
سلی* نامی ماں کی 12 سالہ بیٹی بھی "کام” کے نشانے پر تھی۔ ابتدا میں بات چیت معمولی تھی، مگر آہستہ آہستہ گفتگو خودکشی، ذہنی صحت اور جسمانی نقصان تک جا پہنچی، اور آخرکار اس سے برہنہ تصاویر مانگی گئیں۔جب سلی کو اس بارے میں معلوم ہوا تو وہ سکتے میں آگئی۔ اس کی بیٹی ابھی تک صدمے اور شرمندگی میں مبتلا ہے۔
"کام” بین الاقوامی سطح پر کام کرتا ہے اور اس کے کچھ ممبران برطانیہ میں بھی موجود ہیں۔2024 میں، ویسٹ سسیکس کا رہائشی 18 سالہ کیمرون فنیگن "کام” سے جڑے جرائم میں ملوث پایا گیا اور اسے 6 سال قید کی سزا دی گئی۔ اس پر دہشت گردی کے مواد رکھنے، بچوں کی فحش تصاویر رکھنے اور خودکشی کی ترغیب دینے کے الزامات ثابت ہوئے۔سائبر کرائم کی تحقیقات میں شامل "کیلی” نامی ایک ماہر کے مطابق: "ان چیٹس کو پڑھنا بدترین تجربہ تھا۔ تصاویر سے زیادہ خوفناک چیز وہ گفتگو تھی جو یہ مجرم کر رہے تھے۔”
"کام” میں شامل افراد نوجوانوں کو بلیک میل کرنے کے لیے "ڈاکسنگ” (ذاتی معلومات لیک کرنا) اور "سواٹنگ” جیسے حربے استعمال کرتے ہیں۔ سواٹنگ میں جھوٹی شکایات درج کروا کر پولیس کو کسی کے گھر بھیج دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض اوقات جان لیوا واقعات بھی پیش آ سکتے ہیں۔اس کے علاوہ، "کام” کے کچھ ممبران "روبلوکس” جیسے بچوں کے آن لائن گیمز میں شامل ہو کر معصوم بچوں کو ورغلاتے ہیں، ان سے جنسی استحصال کرتے ہیں، اور پھر انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔
جب اس حوالے سے ٹیلی گرام، ڈسکارڈ اور روبلوکس سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ مسلسل نقصان دہ مواد کی نگرانی کر رہے ہیں اور "کام” سے منسلک گروپس کو ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے۔ ٹیلی گرام کے مطابق، فروری 2024 میں تمام "کام” گروپس کو ڈیلیٹ کر دیا گیا اور مزید مانیٹرنگ جاری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن دنیا میں بچوں کے ساتھ دوستانہ گفتگو کرنا بے حد ضروری ہے۔ جیمز بیبج کے مطابق: "ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی بچہ گھر میں انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہے تو وہ محفوظ ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔”سلی نے والدین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا: "آپ اپنی اولاد کو کھو سکتے ہیں۔ ہمیں مل کر اس کے خلاف کام کرنا ہوگا تاکہ ہمارے بچے محفوظ رہیں۔”ماہرین کے مطابق، حکومت، اسکولز، سوشل میڈیا کمپنیوں اور والدین کو مل کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ "کام” جیسے خطرناک نیٹ ورکس کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔