کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟

کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟
تحریر:ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھرجلالوی
قسط کا خلاصہ
آج کے دور میں بھی قصے انسانی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہیں۔ قصے ہمیں سکھاتے ہیں کہ ہم مشترکہ انسانیت کے اصولوں کو اپنائیں۔ عالمی سطح پر ثقافتی میل جول میں بھی قصوں نے اہم کردار ادا کیا ہے، جیسے کہ اسلام آباد کے لوک ورثہ میلے میں سرائیکی جھمر کی پیشکش نے مختلف قوموں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔ قصے محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ علمی اور اخلاقی ورثے کی حفاظت کرتے ہیں۔

تیسری قسط
دادی اماں،نانی اماں،دادا جان،نانا جان تمام معزز بزرگوار ہستیاں حقیقی معنوں میں قصوں کی ابتدائی انسانی شعور گاہ ہیں۔جہاں سکون واطمینان قلب میسر آتا ہے۔ماضی میں بزرگوں کے قصوں کے ذریعے بچوں کو نہ صرف اعلی اخلاقی قدریں اور اچھے برے کی تمیز سکھائیں جاتیں تھیں بلکہ انہیں زندگی کے عملی پہلوؤں میں کامیاب حیاتی گزارنے کے طور طریقے،شکار،زراعت اور قدرتی خطرات سے بچنے کے علوم بھی سکھائے جاتے تھے۔یہ قصے بچوں کے لیے مثالی کردار پیش کرتے تھے۔جنہیں وہ اپنا آئیڈیل بناتے تھے اور ان کی شخصیت کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔اس طرح قصوں نے بچوں کی سماجی، اخلاقی اور عملی زندگیوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔انہیں خاندان یا سوسائٹی کا ایک اچھا فرد بننے کے لیے تیار کیا۔

پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟
جس نسل نے اپنے آباواجداد کے قصوں کی حکمت کے خزانوں کو اپنایا تو انہوں نے نئی دنیا اور نئےجہاں تخلیق کیے۔آج بھی قصے اور افسانے انسانوں کے لیے ایک ایسا دروازہ ہیں جو انہیں حقیقت کی دنیا سے ہٹ کر ایک خواب کی نئی دنیا میں لے جاتے ہیں۔اس سے ان کی تخیلاتی قوتتیں پھلتی پھولتیں اور آگے بڑھتیں ہیں اور وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے لگتے ہیں۔قصے انسانوں کی تخیلاتی قوت اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں اور انسان کو نئی نئی چیزیں دریافت کرنے اور سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟
ان قصوں کے ذریعے انسان خوابوں کی دنیا میں سیر کرتے ہیں اور اپنی خواہشات اور امیدوں کو پورا کرنے کے لیے عملی حقیقی زندگی میں نئی راہیں تلاش کرتے اور نئے پراجیکٹس کو عملی جامہ پہنانتے ہیں۔یہ قصے ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔مثلاً،ریڈار، چاند گاڑی،سیٹلائیٹ،ٹیلی ویژن،ریڈیو،موبائل فون،ڈائزینر مشین،میزائل،ہوائی جہاز،انٹرنیٹ،سوشل میڈیا ڈیوائسز،روبوٹ اور خلائی سفر سب سے پہلے قصوں میں ہوائی جادوئی قالین،طلسماتی شیشہ،طلسماتی تیر و تلوار،اڈن کٹولہ وغیرہ ہی تصور کیے گئے تھے۔آج یہ سب حقیقت بن چکے ہیں۔یوں قصے اور افسانے نئی دنیاؤں کی تخلیق کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔

مستقبل میں قصے میں موجود قصولیوں کے خواب آنے والے وقت میں سائنسی ترقی و تحقیقی سفر کا نیا جہاں بنے گے۔جو انسانوں کو نئی سوچوں اور امکانات کی طرف لےکرجاہیں گے۔قصوں کی زبان ہمیں غاروں میں موجود ابتدائی انسانی ہاتھوں سے بنی اشکال سے لکھی ملیں ہیں۔خوبصورت پتھروں سے مورتیوں پر نقش نگاری قدیم انسانی قصے کے نمونےہیں۔جیسے بچہ پیدائش کے وقت بول نہیں سکتا مگر اشاروں سے اپنی التجا ماں کو پیش کرتا رہتا ہے۔اس کی ماں اس کی ضرورتیں پوری کرتی رہتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ بچہ بڑا ہوکر اپنے مسائل و ضروریات لکھ کر بھی اور زبان سے بول کر بتاتا ہے۔زبان بھی اسی طرح پروان چڑھتی ہے۔میری کم سن تین سالہ بیٹی زینب الطاف ڈاھر بی بی اپنی ٹوٹی پھوٹی باتوں اور اشاروں اور آوازوں کے ذریعے کبھی کبھی پنسل سے دیواروں پر نرم ہاتھوں سے لکیروں کی مدد سے شکلیں بنا کر ہم میاں بیوی تک اپنا پیغام پہنچاتی ہے۔

آج بھی دنیا کا پہلا انسانی رسم الخط تصویری اشکالی رسم الخط کو مانا جاتا ہے۔قدیم انسان نے اپنے قصوں کے ذریعے سے اپنا کتھارسس مدعے کو شجر،پتھر اور غار کی دیواروں پر اشکال بناکر اپنےپیغام کو آج کے انسان تک سانجھا کیا۔یہ نقش و نگار نہ صرف ان کی روزمرہ کی زندگی بلکہ ان کے عقائد اور تصورات کی بھی عکاسی کرتے ہیں ۔جس کو ہم آج ٹوٹم و ٹیبوز کا علم کہتے ہیں۔قصے میں قصولی جانوروں،چرند پرند،دریا،سمندر درختوں اور بادلوں کو بھی انسانوں کی طرح بات کرتے ہوئےدکھاتےتھے۔ان کے قصوں میں جادو،دیوی و دیوتا،مافوق الفطرت عناصر اور روحانی قوتوں سے لبریز کرداروں کی ایک بھیڑ ہوتی تھی۔جو ان کے لیے قدرت کا مظہر سمجھنے کی فلم انڈسٹری تھی۔

آج جب ہم پیچیدہ زبانوں اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں تو قصہ کے طور طریقے بھی بدل چکے ہیں۔روہیلے چولستانی قصولیوں میں میدا رام ، سمارا رام، مجید مچلا، فیض مائی بھٹی، میرے ابا جی سئیں غلام مصطفٰی خان ڈاھر، مہر غلام رسول، ملک عبداللہ عرفان، طاہر غنی، ملک آصف سیال، جام غلام یاسین لاڑ جیسے عظیم الشان قصہ گو بھی وسائل کی شدید کمی کے باوجود ماڈرن طریقےسے سوشل میڈیا ذرائع سے اپنے قصوں کو عام کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔

ان قصولیوں نے قصے کا آغاز اس باکمال مہارت سے کیا ہے کہ پوری کائنات کا مالک خالق حقیقی صرف اللہ پاک ہے۔باقی سب فنا ہے۔اس کا بنیادی مقصد صرف طاغوتی طاقتوں کے تکبر و غرور کی نفی کرنا ہے۔امن و اقتصادی آسودگی، عجز و احترام کو فروغ دینا ہے۔اللہ رب العزت جلال کی شہنشاہیت کو برقرار رکھنا ہے۔"واہ واہ ہے اللہ بادشاہ ہے کاغذاں دی بیڑی ہے مکوڑا ملاح ہے،خلقت پئی چڑھدی ہے ساڈی صلاح ہے۔ہک ہا بادشاہ، بادشاہواں دا بادشاہ وی خود اللہ پاک آپ بادشاہ ہے، اوہ ہک زمینی ٹوٹے دا بادشاہ ہا۔اوندی نگری ہی”۔اصل حکمران وہ ہے جو بشریات، جمادات،حیوانات اور نباتات کی نشوونما،خیر و برکت کےلیے ہمیشہ مثبت اقدامات اٹھائے۔

ہمارے قصولی ہمارے سرائیکی وسیب کی عالمگیر فوک وزڈم آرکیالوجی ویب سائٹس بن چکے ہیں۔سوجھل وسیبی قصولیوں کی معاشی خوشحالی کے اقدامات حکومت پاکستان سمیت اقوام متحدہ آثار قدیمہ کی اہم ذمہ داری ہے۔قومی سرائیکی لوک دانش کے اثاثے کو محفوظ کرنے کے لیے مقامی روہی چولستانی قلعہ ڈیراور، چولستان جیپ ریلی کے سنڑ مقام پر میوزیم قائم ہونا چاہیے ۔جہاں دنیا بھر کے سیاح سرائیکی خطے کی 6000چھ ہزار سالہ قدیم تہذیب وتمدن وادی ہاکڑہ سرسوتی کے ساتھ سرائیکی عباسیہ شاہی ریاست بہاولپور کی خوشحالی سے بدحالی کے قصےکی حقیقت جان سکیں۔مقامی روہیلے چولستانی قصولیوں کو مراعات دیں جائیں۔ہمیں ان کی لوک دانش کو جدید ٹیکنالوجی سسٹم سے دنیا تک آن ائیر کرانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔۔۔۔جاری ہے.

Comments are closed.