ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام….از… محمد نعیم شہزاد

نومبر کا پہلا ہفتہ تحریک آزادی جموں کشمیر کا ایک خونچکاں باب اور ہندو دہشت گردانہ ذہنیت کی سیاہ ترین مثال ہے۔ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، آج سے بہتر برس پہلے جس تحریک آزادی کو کچلنے کی مذموم سعی لاحاصل کی گئی ایک بار پھر وہ تحریک آزادی ویسے ہی حالات سے دوچار کر دی گئی ہے۔ جور و ستم کی تاریکیوں اور ظلمتوں میں اضافہ تو ہوا ہے مگر طرز واردات اور مکروہ سوچ وہی ہے۔

اپنے ناجائز غاصبانہ قبضے کو جائز ثابت کرنے کا خواب سچ کرنے کی خاطر دہشت گرد بھارتی قوم راجہ ہری سنگھ اور ڈوگرہ راج کی صورت میں ہو یا نریندر مودی اور آر ایس ایس کی غنڈہ گردی کی صورت، ایک ہی خاص انداز نظر آتا ہے اور ایک ہی مقصد کہ مسلم اکثریت کو کسی طور اقلیت میں بدل ڈالا جائے۔ اور اس مقصد کے لیے ظلم و جبر کا بازار گرم کیا جاتا ہے، نہ کسی کی جان سلامت اور نہ آبرو محفوظ، محرک صرف ایک ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی کی جائے یا انھیں ہجرت پر مجبور کر دیا جائے تاکہ مسلمان کشمیر میں اقلیت کا درجہ پا لیں اور پھر اقوام متحدہ کی قراردادیں اور دنیا کے مسلمہ جمہوری تقاضوں کو نبھاتے ہوئے کشمیر کو ہندو اکثریتی ریاست ظاہر کیا جا سکے۔

بھارت کی سفاکانہ، غیر منصفانہ اور غیرانسانی سوچ تو سب پر واضح ہے اور ہندتوا کا جنون بھی کسی سے مخفی نہیں مگر عالمی طاقتیں کیوں محو تماشہ اور لب بام ہیں، کیا دنیا میں مسلم کے لیے یہی انصاف کا معیار ٹھہرا دیا گیا ہے؟
وہ کون سا ظلم ہو گا جو نہتے کشمیریوں پر روا نہیں رکھا جاتا؟
کیا کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں نہیں بدل دیا گیا؟
مگر یہ سب کس جرم کی پاداش میں؟؟؟
ایک نہیں کئی ایک سوال ہیں مگر جواب کون دے گا؟

ناانصافی معاشرے میں عدم برداشت اور انتقام کی آگ کو ہوا دیتی ہے۔ کشمیری قوم ایک عرصہ سے اس آگ میں جھونکی ہوئی ہے اور اب اس کی حدت میں عام شہریوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ سکالرز بھی جل رہے ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ رد عمل کے طور پر بھارت کو بھی اس آگ میں جلنا ہو گا۔ مگر دہرا معیار انصاف یہاں بھی آڑے آتا ہے اور کشمیریوں کے اس رد عمل کو دہشت گردی اور militancy کا نام دیا جاتا ہے۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

بھارت اور اس کے ہمنوا ممالک کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئیں۔ ظلم کی ایک طویل داستان ہے جو اہل کشمیر اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں۔ قربانیوں اور شہادتوں کے یہ انمٹ نقوش کسی بڑے آتش فشاں کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ ظلم و نا انصافی کی تلافی اور تدارک کا وقت گزر چکا اور ہم بحیثیت مجموعی انسانیت کے مجرم ہیں، جس سنگین بے حسی کا مظاہرہ ہم کر رہے ہیں اس کا تصور بھی محال ہے۔

ایک زندہ انسان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر وحشیانہ تشدد، محرم رشتوں کے سامنے معصوم کلیوں کو نوچنا، پیلٹ گن سے بینائی چھیننا اور جسم کا پور پور اذیت میں مبتلا کر دینا اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر کے جسد خاکی تک کو ہوا کر دینا معمولی جرم نہیں ہیں۔ اس سب پر مستزاد کمیونیکیشن لاک ڈاؤن اور سوشل میڈیا بلاکنگ اور سسپنشن ہے۔ تمام ایسے اکاؤنٹ جو کشمیر کے لیے آواز اٹھاتے ہیں بلاک کر دیے جاتے ہیں مگر ظلم کے یہ ضابطے ہم نہیں مانتے۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
تحریر: محمد نعیم شہزاد

Comments are closed.