ہم کیسے صوبے کے معاملے میں مداخلت کریں ؟ چیف جسٹس کے ریمارکس
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں بلدیاتی اداروں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

وکیل نے کہا کہ بلڈنگ کنٹرول واٹر سپلائی سیوریج بلدیاتی اداروں کے ماتحت ہونے جارہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں نہیں جاسکتی،عدالت قرار دے چکی ہے کہ آرٹیکل 140 اے پر عملدرآمد ضروری ہے،

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میئر کراچی کو کئی مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ کا افتتاح کرتے دیکھا،افتتاح کے اگلے ہی دن بسیں سڑکوں سے غائب ہوتی ہیں، میئر کراچی ڈیلیور نہیں کر سکتے، شایدتب ہی اختیارات واپس لیے گئے،

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صوبوں نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 140 اے پر عملدرآمد کرنا ہے،وکیل ایم کیو ایم نے کہا کہ بلڈنگ کنٹرول پانی اور سیوریج سمیت کوئی ادارہ میئر کراچی کے ماتحت نہیں،پارکس پلے گراؤنڈز سمیت سوک سہولیات کے ایم سی کے ماتحت ہیں،

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ممکن ہے ماضی میں حکومتیں غلطیاں کرتی رہی ہوں، وکیل نے کہا کہ مقامی حکومت کے ڈلیور نہ کرنے پر آئینی اختیارات واپس نہیں لیے جاسکتے ہیں،آئین کے آرٹیکل 140 اے کی تشریح سپریم کورٹ کرے،سپریم کورٹ دیکھے کہ ملک میں آرٹیکل 140 اے پر صوبے کس حد تک عمل کر رہے ہیں

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کا اختیار ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کے ساتھ ایریاز آف ڈیوولوشن طے کرے،ہم کیسے صوبے کے معاملے میں مداخلت کریں ؟ہم کیسے چاروں صوبائی اسمبلیوں کو عمل کے لیے کہیں؟ فی الحال تو ملک میں کوئی لوکل حکومت موجود نہیں ہے،اگر ہم ایک کمیٹی میں صوبے اور بلدیاتی نمائندوں کو ڈائیلاگ کے لیے بٹھائیں تو وہ بھی فی الحال ممکن نہیں

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر یہ تمام کام لوکل گورنمنٹ کے ہیں تو قانون سازی بھی اس حساب سے ہونی چاہیے،چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ اس کیس میں ہماری معاونت کریں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسے کام چلا تو پھر سندھ کے دیگر شہروں حیدرآباد اور لاڑکانہ میں کام کون کریگا؟

عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر ایم کیو ایم کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا،عدالت نے باقی درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی،ایم کیو ایم کے وکیل سے ایک ہفتے میں تحریری جواب طلب کر لیا گیا

Shares: