ہمیں چلتے رہنا ہوتا — خطیب احمد

چند دن پہلے سکول سے واپسی پر گاؤں جا رہا تھا تو میرے آگے بائیک ایک لڑکے کے پیچھے کوئی ستر سے اسی سالہ بزرگوں کی جوڑی بیٹھی جا رہی تھی۔ سنگل سڑک تھی اگر انکو کراس کرتا تو ان پر بہت زیادہ دھول مٹی پڑنی تھی کہ آجکل دیہاتی سڑکوں پر ٹریکٹر ٹرالیوں اور بڑی مشینوں کے چلنے کیوجہ سے بہت دھول بن جاتی ہے۔ فصل کٹنے کے بعد ٹریکٹر ٹرالیوں پر جانے والی مٹی سڑک کر گرتی وہ بھی بہت دھول بناتی ہے۔ میں بائیک کے پیچھے پیچھے آرام سے گاڑی چلا رہا تھا کہ دس کلو میٹر تک جہاں بھی انکو کراس کرتا انہوں نے مٹی میں نہا جانا تھا۔ بائیک ڈرائیور نے ایک دو بار خود ہی مجھے سپیس دی مگر میں نے کراس نہیں کیا۔ آدھے راستے میں جاکر بائیک والے نے بائیک روک لی کہ میں گزر جاؤں۔ میں نے پیچھے ہی گاڑی روکی اور خود اتر کر آگے گیا۔

اور اس لڑکے سے کہا کہ میں خود ہی آگے نہیں جا رہا آپ چلتے جائیں۔ پریشان نہ ہوں۔ مجھے راستہ نہ دیں میں پیچھے ہی آؤں گا۔ میں پیچھے آنے ہی لگا تھا کہ مجھے بوڑھی ماں نے آواز دی کہ پتر میری بات سنو۔ تم کیوں نہیں آگے جا رہے؟

میں نے کہا کہ میں اگر آگے گزروں گا تو آپ پر مٹی پڑے گا جو میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں کسی پر بھی مٹی ڈال کر اسے کراس نہیں کرتا چاہے جتنی بھی جلدی میں ہوں۔ اماں نے پوچھا تم کہاں سے آئے ہو اور کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا نوشہرہ ورکاں سے آیا ہوں اور بھڑی شاہ رحمان میرا گھر ہے ایسے سپیشل بچوں کے ایک سرکاری سکول کا ٹیچر ہوں جو دیکھ نہیں سکتے یا بول اور سن نہیں سکتے یا چل پھر نہیں سکتے۔ بس میرے یہ بات کہنے کی ڈیر تھی وہ اماں پیچھے سے اتری اور مجھے گلے لگا کر میرا منہ ماتھا چومتے ہوئے ڈھائیں مار کر رونے لگ گئی۔ بابا جی اترے اور وہ بھی گلے لگ کر رونے لگ گئے۔ اتنی دیر میں پیچھے بھی سڑک پر چند گاڑیوں اور رکشوں کی لائن لگ گئی۔ مگر کوئی بھی ہارن نہیں بجا رہا تھا کہ راستہ چھوڑو۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے بس کار سائیڈ پر کر لینے دیں ادھر ہی رکیں۔

گاڑی سائیڈ پر لگائی کہ پیچھے کی چیزیں گزر سکیں۔ اور انکے پاس آیا۔ اماں جی نے بتایا کہ میں نے جو بات کہی ہے یہ بات مجھے الہام ہوئی ہے۔ یہ بات انہی الفاظ میں انکا اکلوتا بیٹا کہا کرتا تھا جو چھ سال قبل 30 سال کی عمر میں شیخوپورہ روڑ پر ایک روڑ ایکسیڈنٹ میں موقع پر ہی وفات پا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ انکی شادی کے 20 سال بعد اللہ نے بیٹا دیا جب وہ اولاد کی امید ہی چھوڑ چکے تھے۔ جب وہ بائیس سال کا ہوا تو غیر قانونی راستے سے یونان چلا گیا۔ 8 سال وہاں رہا جب کاغذ بنے تو چھٹی آیا اور اسکا رشتہ دیکھ رہے تھے کہ ایک روڑ ایکسیڈنٹ میں وفات پا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ انکا اس دنیا میں واحد سہارا تھا۔ اماں نے کہا کہ وہ یونان جانے سے پہلے جب مجھے اور تمہارے چاچے کو بائیک پر کہیں لے کر جاتا تھا ناں۔ اور لوگ کراس کرتے ہوئے دھول اڑا جاتے تھے تو وہ کہتا تھا اماں جب میرے پاس گاڑی آئے گی ناں تو میں کسی پر بھی دھول نہیں ڈالوں گا۔ چاہے ایک گھنٹے کا سفر تین گھنٹوں میں ہی کیوں نہ طے کروں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو کراسنگ میں دھول کے بادل اڑا کر بائیک والوں اور سائیکل سواروں کے سارے کپڑے گندے کر جاتے ہیں۔

وہ یونان سے آکر گاڑی خریدنے ہی والا تھا کہ اللہ کا حکم آگیا اور وہ اگلے جہان چلا گیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آرہے اور کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ہم نوشہرہ ورکاں دوائی لینے گئے ہوئے تھے اور یہ لڑکا ہمارا ہمسایہ ہے بائیک ہماری اپنی ہے جو ہمارے بیٹے کی تھی اسے ساتھ بطور ڈرائیور لائے ہیں۔ لوکل گاڑیاں بہت دیر لگا دیتی ہیں۔

میں نے اس لڑکے سے کہا تم بائیک لیکر چلو میں اماں اور چاچا جی کو لیکر تمہارے پیچھے ہی آرہا ہوں۔ مگر رہو گے تم آگے ہی اور سپیڈ سے چلو زرا اب۔

اماں کو میں نے فرنٹ پر بٹھایا اور چاچا کو پیچھے اور گاڑی انکے گاؤں کی طرف موڑ لی۔ رستے میں اماں جی نے بتایا کہ تمہارا چاچا جوانی میں پالتو جانوروں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑا کرتا تھا۔ بڑی دور سے لوگ آکر لیجایا کرتے تھے اور چھوڑ بھی جاتے تھے۔ تب ہر گھر میں مویشی ہوا کرتے تھے۔ اور گاہے بگاہے کام آتا رہتا تھا چند کنال زمین بھی تھی جس سے گھر کے چاول گندم آجاتے تھے۔ وہ بیٹے کے یونان جانے پر بیچ دی تھی۔ جو جانوروں کی ہڈیاں جوڑنے کا فن جانتا ہوں وہ انسانی ہڈیاں کیوں نہیں جوڑ سکتا۔ مویشی کم ہوئے تو انسانی ہڈی جوڑ کا کام شروع کر دیا اور انکی جوڑی ہوئی ہڈی کبھی خراب نہ ہوتی تھی۔ یہ کام بیٹے کی وفات تک چلتا رہا۔ جب وہ فوت ہوا تو کام چھوڑ دیا اب بس روتے رہتے ہیں۔

انہی باتوں میں ہم انکے گھر پہنچ گئے۔ کوئی چھ سات مرلے کا ڈبل سٹوری گھر ماشاءاللہ بہت اچھا بنا ہوا تھا۔ جو انکے بیٹے نے یونان سے پیسے بھیجے تو بنایا گیا تھا۔ اماں نے مجھے پوچھا تمہیں کوئی جانے کی جلدی تو نہیں؟ میں نے کہا بلکل بھی نہیں میں تو رات یہاں ہی رکوں گا۔ میری یہ بات سننے کی دیر تھی کہ وہ دونوں میاں بیوی جیسے خوشی سے نہال ہو گئے۔ اماں نے کہا تم بیٹھو میں گوشت لیکر آتی ہوں۔ میں نے کہا آپ بیٹھیں میں لے آتا ہوں۔ مجھے ہانڈی پکانی آتی ہے آپ اجازت دیں تو میں ہانڈی پکا لوں ؟ اماں پھر میرے گلے لگ گئی کہ میرے غلام فرید کو بھی ہانڈی پکانی آتی تھی کہ وہ ہماری بیٹی اور بیٹا دونوں تھا۔

ہانڈی میں نے پکائی اماں کو آٹا گوندھ کر دیا اور اماں نے روٹیاں پکائیں۔ کھانا کھایا اور پھر سے باتیں کرنے بیٹھ گئے۔ رات کوئی بارہ بجے تک ہم باتیں کرتے رہے۔ اماں نے بتایا کہ بیٹا ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ بیٹے کے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے پڑے ہیں جو ہمارے لیے کافی ہیں۔ جو اسنے یونان سے کمائے تھے۔ جتنی ضرورت ہو ہم کسی کے ساتھ جاکر بنک سے لے آتے ہیں۔ وہ جاتے ہوئے ہمیں کسی کا محتاج نہیں چھوڑ کر گیا۔ ہم نے کسی سے کبھی ایک پیسے کی بھی مدد نہیں لی بلکہ کسی ضرورت مند کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ بنک کا مینجر بھی ہماری بڑی عزت کرتا ہے۔ اماں ہی زیادہ بات کرتی تھی۔ چاچا بس کبھی کبھار کوئی بات کرتا اور ہماری باتیں سنتا رہتا۔ اماں نے بتایا کہ بیٹا پہلے ہم دعا کرتے تھے کہ اللہ ہمیں اولاد دے۔ جب دعا چھوڑ دی تو اللہ نے بیٹا دے دیا اور بیٹا بھی ایسا فرمانبردار جیسے فرزند ابراہیمی کی صحبت پائی ہو۔ ہم خوش تھے کہ بڑھاپے کا سہارا ہے اب پوتے پوتیاں ہونگے کہ اللہ کا حکم آگیا اور ہم پھر تنہا ہوگئے۔

اسکے حکم بڑے ڈاڈھے ہیں۔ ماننے پڑتے ہیں۔ اسکے راز وہ ہی جانتا ہے۔ ہم اسکی رضا میں خوش ہیں۔ سوچتے ہیں وہ اولاد دیتا بھی نہ تو ہم کیا کر سکتے تھے۔ اسنے اولاد دی اور ایک وقت مقررہ تک اسے زندگی بھی دی۔ ہم بھی اپنی زندگی پوری کریں گے اور وہاں پھر اپنے بیٹے سے مل لیں گے۔ جہاں ہم پھر کبھی بھی جدا نہ ہو سکیں گے۔ کہ غیب کی باتیں اور حکمتیں تو وہی جانتا ہے۔ ہم سب کا یہاں ایک متعین رول ہے جو پلے کرکے ہم چلے جائیں گے۔ یہی باتیں کرتے ہم سو گئے صبح اٹھ کر میں سکول آگیا اس وعدے کے ساتھ کہ مہینے میں ایک بار ضرور ملنے آیا کروں گا۔

کہیں سے بھی ملنے والے دکھ درد تکلیفیں اور حادثے زندگی کا لازمی حصہ ہیں یارو۔ زندگی وہ ہر گز نہیں ہے جو ہم سوچتے ہیں بلکہ وہ ہے جو ہمارے ساتھ پیش آتا ہے۔ مگر زندہ تو رہنا ہوتا ہے اور یہی زندگی کی حیثیت اور حقیقت ہے۔ آج غم ہیں تو خوشی ضرور آئے گی اور کبھی خوشیوں کو اچانک سے غم بھی آلے گا۔ بس ہمیں چلتے رہنا ہوتا اور اپنا ایک متعین سفر جاری رکھنا ہوتا۔

Comments are closed.