اس وقت حمیرا اصغر کے فون لاک کھل جانے کی خبر سب سے بڑی قومی خبر ہے، ہر گھنٹے بعد فون اٹھائے ہر کوئی انتظار کر رہا ہے کہ فون میں کیا کچھ نکلے گا دوسری طرف حمیرا کی بھابھی کو بھی اس کی موت سے سہارا مل گیا ہے کہ وہ اپنی داد رسی کیلئے ہر چینل پر نظر آرہی ہیں ۔

یوٹیوبرز کو تھمب نیل کے فن اور ان کے آنسوؤں سے اس مہینے ڈالرز بھی ٹھیک ٹھاک آجائیں گے، عائشہ آپا کی 15 روز پرانی لاش نے اب حمیرا کی 9 ماہ پرانی لاش کی جگہ لے لی ہے، میں نے کئی لوگوں کو یہ بھی تجزیہ کرتے ہوئے سنا کہ عائشہ آپا تو چلو بوڑھی تھیں بے چاری مگر یہ تو خوبرو دوشیزہ تھی ہائے اس کا جانا نہیں بنتا تھا۔ میں ایک لمحے کیلئے یہ سوچنے لگی کہ بس اتنی سی بات ہے انسان اور انسانیت تو کہیں پیچھے رہ گئی، کسی کو یاد بھی ہے عائشہ یوسف ؟ نور مقدم ، سارہ انعام اور ایسی کئی کہانیاں جو وقت کے ساتھ مدھم ہوگئیں، ان کے ساتھ بھی تو ہم نے یہی کچھ کیا تھا، کیا اس کے بعد واقعات رونما نہیں ہوئے ؟

اصل مدعا تو یہ ہے کہ ہم وجہ جاننا ہی نہیں چاہتے ، ہمارے اندر باہر بے حسی ہے ، ہم سراپا نقصان ہیں ، بے چین ہیں ، نفسا نفسی کا عالم ہے کہ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں، مرنے والوں پر ماتم کا ڈھونگ اور زندہ لوگوں پر زمین تنگ کرنے کا رواج عام ہوچکا ہے، اگر میں یوں کہوں کہ اب ایسے سوانح ایک خبر سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں تو شاید غلط نہیں ہے۔ حمیرا کی خبر سنتے ہی نیوز گروپ میں ان کی ویڈیو پر نظر پڑی تو مجھے اچانک لگا کہ یہ میں بھی ہوسکتی تھی، میں گہری سوچ میں چلی گئی میرے ساتھ بیٹھی ایک خاتون سے میں نے کہا یار میری ٹانگیں کانپ رہی ہیں پتہ نہیں کیوں اس سے پہلے ہم حمیرا پر بات کر رہے تھے اس نے بڑی لاپرواہی سے موبائل میں ریلز دیکھتے ہوئے کہا گرم سرد ہوگیا ہوگا موسم بھی ایسا ہے ناں اور پھر وہ مجھے کوئی اور قصہ سنانے لگی۔

ایک اورخاتون کی ویڈیو کا تھمب نیل دیکھا تو بہت تکلیف ہوئی، انہوں نے اس کو زنا بالجبر کہہ دیا تھا حالانکہ انہی کو گزشتہ مہینے لاہور ہائیکورٹ نے ایسے غلیظ تھمب نیلز اور کانٹینٹ پر اچھی خاصی ڈانٹ پلائی تھی اور تحریری معافی کے ساتھ عہد بھی لیا تھا مگر ڈالرز کا نشہ ہے کیا کیجیے، بس جس کو جو ملا اس نے وہ بیچا۔پھر ایک صحافی نے سب بے بڑی خبر بریک کر کے بتایا کہ حمیرا کا فون ان لاک کر لیا گیا ہے اور قاتل کا پتہ لگا لیا گیا ہے اس کی لوکیشن میر پور خاص تھی اور پھر اس فلیٹ میں تھی، ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ200 وائس نوٹ اور 439 ویڈیوز ہیں جو دیکھنے کے قابل نہیں ہیں اس لئے ان کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔

جو رہا سہا رحم کسی کے ذہن میں آ بھی سکتا تھا وہ بھی گیا اب جب کبھی اس واقعے کا ذکر کرکے کوئی سبق حاصل کرنا بھی چاہے تو اس کو کبھی اس کے کردار اور کبھی اس کے انڈسڑی میں آنے پر اعتراض لگا کر اسکی موت پر مزاق بنایا جائے گا، وقوعہ سانحہ بننے کی بجائے موت برحق اور انجام ایسا ہی ہوتا ہے تک رہ جائے گا۔سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ رہی کہ انٹرویوز میں حمیرا اصغر کے نام کے ساتھ جمع کا صیغہ استعمال کرنے کی بجائے انتہائی بدتمیزی سے ان سے دوستوں سے ان کے بارے میں اس کہہ کر تذکرہ کیا گیا پھر ان کی لاش لینے جب ان کے بھائی پہنچے تو وہاں موجود ہر شہری اور مائیک تھامے صحافی نے ان کا ایسے احتساب کیا گویا کھلی کچہری لگی ہو بہت سوں نے تو فیصلہ بھی جاری کیا کہ ان کو لاش دینی ہی نہیں چاہیے تاہم لاش کو کراچی سے لاہور منتقل ہونے تک کئی چہ مگوئیاں سامنے آئیں۔

ہر آدھ پونے گھنٹے بعد ایک نئی بات ان سے منسوب سامنے آتی، کسی نے قتل کی پیش گوئی کی اور کوئی ان کو نشے کا عادی کہتا رہا کسی کے مطابق ان کو زبردستی ہمبستری کا کہا گیا بس یہ کہیں کہ جس نے جہاں تک ہوا غلاظت کا سامان کیا۔پولیس کے مطابق ایک خصوصی کمیٹی بنائی گئی ہے جواس واقعے کی تحقیقات کر کے موت کی وجہ جاننے کی کوشش کرے گی البتہ تب تک مردہ جسم کو قبر سے نکال کر کب تک ہم تماشہ بنائیں گے اس کا تعین کرنا فی الحال مشکل ہے۔

یہ وقت جہاں ہر شخص کو معاشرتی بگاڑ سے متعلق سنجیدہ ہو کر سوچنے کا ہے وہیں پر بے لگام کرائم رپورٹرز کو اب ذرا سنبھلنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشرے کی گھٹن میں کانٹینٹ سانس کا سا کام کرتا ہے ۔

Shares: