احسان اللہ مونی ایک بنگالی فلسماز ہے. اس نے تقریباً 60 ملین ڈالر خرچ کر کے ڈھاکہ میں ڈپلیکیٹ تاج محل بنایا. احسان اللہ نے بتایا کہ 1980 میں وہ جب آگرہ گیا اور اس نے تاج محل دیکھا تو وہ اسے دیکھتا ہی رے گیا. اس نے سوچا کتنے غریب بنگالی ہوں گے جو زندگی بھر اس حسن تعمیر کو دیکھ ہی نہیں پائیں گے. اور اسی سے اسے خیال آیا کیوں نہ بنگلا دیش میں بھی ایک تاج محل بنایا جائے.
بنگلا دیش میں تاج محل بن گیا. بیشک یہ اصلی تاج محل نہیں نہ حسن تعمیر میں اسے مات کر سکتا ہے. لیکن آج کوئی بنگالی خاندان جب اپنے بال بچوں کے ساتھ سیر کیلئے چار ایکڑ پر پھیلے اس تاج محل میں آتا ہے تو اپنے بچوں کو یہ ضرور بتا سکتا ہے آگرہ کا تاج محل بلکل ایسا ہی ہے.
ہم لوگ جب کسی خوبصورت حسین یا تاریخی مقام پر جاتے ہیں تب ہم ایک خوف کا شکار ہو جاتے ہیں. یہ خوبصورت پل یہ حسین یادیں کہیں ہم کھو نہ دیں. ہم ان کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں. تاکہ آنے والے وقتوں میں ہم بتا سکیں ہم نے یہ مقام دیکھا ہے. اس لئے ہم دھڑا دھڑ وہاں تصاویر نکالتے ہیں. کچھ بے وقوف اسی خوف کا شکار ہو کر وہاں اپنے نام لکھنا شروع کر دیتے ہیں.
آپ آج بھی اپنی آنکھیں بند کر کے اپنی زندگی کے وہ حسین پل خوبصورت مقامات کا سوچیں تو آپ کو اکثریت یادیں وہ ملیں گی جو تصاویر میں نہیں ہوں گی. خوف کی ہر یاد دماغ بھول جاتا ہے. اپنی ماضی کی تصاویر آپ کو اجنبی لگیں گی. کچھ احسان اللہ مونی کی طرح لوگ بھی ہوتے ہیں. وہ یہ حسن اپنے ساتھ لے آتے ہیں. اپنی یادوں میں سب کو شامل کر لیتے ہیں.
لندن پیرس سوئٹزرلینڈ کے حسن اور یادیں بیان کرتے لوگ یا دوسرے معاشروں کے انصاف اور انتظام کی کہانیاں سنانے والے ہمارے لوگ بھی اگر اپنے خوف سے نکل کر یہ حسن صفائی انتظام اور انصاف اپنے ساتھ لاتے اپنے آبائی علاقوں میں وہی مثل بنا کر دکھاتے تو یہاں کے غریب بھی اپنے بچوں کو دکھاتے دیکھو سوئٹزرلینڈ لندن پیرس کی سڑکیں گلیاں ایسی ہوتی ہیں. وہاں انصاف ایسا ہوتا ہے.
لیکن ہمارے پاس کوئی احسان اللہ مونی نہیں. ہمارے ہاں صرف کہانیاں ہیں جن کو دیکھنے کیلئے ہماری نسل باہر جانے کے خواب دیکھتی ہے. ان دشوار راستوں پر یہ قوم اپنے لاکھوں بچے ہار گئی ہے.