ہماری دودھیا کہکشاں!!! — ڈاکٹر حفیظ الحسن
ساحر لدھیانوی (ساحر لودھی نہیں) برصغیر کے مشہور نغمہ نگار اور شاعر گزرے ہیں۔ اُنکی ایک خوبصورت نظم "انتظار” کا ٹکڑا تھا:
دور وادی میں دودھیا بادل
جھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں
دل میں ناکام حسرتیں لے کر
ہم ترا انتظار کرتے ہیں
ان بہاروں کے سائے میں آ جا
پھر محبت جواں رہے نہ رہے
زندگی تیرے نامرادوں پر
کل تلک مہرباں رہے نہ رہے!
اب ساحر صاحب تو ٹھہرے بڑے شاعر، دودھیا بادلوں کے چکر میں پوری نظم کہہ گئے مگر ہم کس خوبصورت شے پر کس خوبصورت زبان میں لکھیں؟
چلیے ہم شاعری کی بجائے سائنس کی زبان استعمال کرتے ہیں اور دودھیا بادلوں کی جگہ دودھیا کہکشاں کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ وہ کہکشاں جو قدیم دور میں مصنوعی روشنیاں نہ ہونے کے باعث رات کو صاف آسمانوں پر دودھیا لکیر سی دکھتی اور دیکھنے والوں کو وطیرہ حیرت میں ڈال دیتی۔ ایک سفید راستہ دور کہیں پراسرار آسمان کے بیچوں بیچ۔ نجانے وہاں کیا ہو گا؟
مگر آج ہم جانتے ہیں کہ ہم بھی اسی دودھیا کہکشاں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ اس کہکشاں کو ملکی وے کہتے ہیں۔ ہمارا سورج اس کہکشاں کے کئی ارب ستاروں میں سے ایک معمولی سا ستارا ہے۔
یہ کہکشاں کتنی وسیع ہے؟ اگر آپ روشنی کی رفتار سے سفر کریں(جو کہ ناممکن ہے مگر فرض کیجئے) تواسکے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے کے لیے آپکو کم و بیش 1 لاکھ سال درکار ہونگے۔ گویا اس کہکشاں کا قطر تقریباً 1 لاکھ نوری سال ہے۔
ملکی وے پرانے دور کے کمپیوٹر کی سی ڈی کیطرح چپٹی اور گول نہیں ہے بلکہ یہ ایک سپائرل شکل کی ہے یعنی بھنور جیسی اور اسکے اسکے چار بڑے اور پھیلے بازو ہیں جیسا کہ تصویر میں دِکھ رہے ہیں۔ ہمارا نظام شمسی، ہماری زمین اور ہم ان میں سے ایک بازو میں کہیں نقطے کی مانند موجود ہیں۔ ملکی وے کی موٹائی تقریباً 1 ہزار نوری سال ہے۔ تو نہ ہی یہ سی ڈی کیطرح چپٹی ہے اور نہ ہی مکمل گول۔
اس کہکشںاں میں موجود تمام ستارے بشمول سورج اسکے مرکز میں موجود ایک بہت بڑے بلیک ہول کے گرد گھوم رہے
ہیں۔ اگر یہ بلیک ہول نہ بھی ہوتا تو بھی سورج اور ستارے اس کہکشاں کے مرکز کے گرد ہی گھومتے۔ایسا کیوں؟ یہ بحث پھر کبھی۔ اس کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول کا ماس، سورج کے ماس سے 40 لاکھ گنا زیادہ ہے!! مگر گھبرائیں نہیں ، ہماری زمین اس بلیک ہول سے کافی دور ہے یعنی تقریباً 28 ہزار نوری سال دور۔
آپ اس وقت جو یہ تحریر پڑھ رہے ہیں اور میں جو یہ تحریر لکھ رہا ہوں، ہم دونوں اس کہلشاں کے مرکزی بلیک ہول کے گرد 28 ہزار نوری سال فاصلے پر 80 لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہے ہیں۔ اگر آپ اس تحریر کو ڈیڑھ منٹ میں پڑھتے ہیں تو تحریر کے ختم ہونے تک آپ کہکشاں میں موجودہ مقام سے، کہشکشاں کے مرکز کا محور کرتے 20 ہزار کلومیٹر دور جا چکے ہونگے۔ اسی رفتار سے ہمارا نظامِ شمسی ہر 23 کروڑ سال میں ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد ایک چکر لگاتا ہے۔ یعنی آخری بار سورج اس کہکشاں میں جس مقام پر اب ہے ، وہ تب تھا جب زمین پر ڈائناسورز اج سے 23 سے 25 کروڑ سال پہلے نمودار ہوئے تھے۔
ہماری کہکشاں میں موجود اربوں ستاروں کے گرد کئی سیارے اپنے اپنے مدار میں ویسے ہیں گھوم رہے ہیں جیسے ہمارے سورج کے گرد اسکے آٹھ سیارے۔ سائنسدان اب تک تقریباً 5 ہزار ایسے سیارے ڈھونڈ چکے ہیں جن پر شاید کسی یا کئییوں پر زندگی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہو۔
ہماری کہکشاں سے بڑی اربوں اور کہکشائیں اس کائنات میں موجود ہیں جن میں اب تک کی دریافت کردہ سب سے بڑی کہکشاں کا نام IC1101 ہے اور یہ 40 لاکھ نوری سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ یعنی یہ ہماری کہشاں سے بھی کئی گنا بڑی ہے۔ کائنات اتنی وسیع ہے یہ سوچ کر ذہن چکرا سا جاتا ہے۔ ویسے ساحر لدھیانوی صاحب کو اس پر بھی کچھ لکھنا چاہیے تھا مگر وہ تو 1980 میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے تو چلیے ہم ہی ایک شعر کہے دیتے ہیں:
وسعتِ ابتدا؟ نہیں معلوم
وسعتِ انتہا؟ نہیں معلوم
ہم کو معلوم ہے جو ہے معلوم
اور جو معلوم تھا، نہیں معلوم