حضور ﷺ آپ سا کوئی نہیں — ابو بکر قدوسی

اس کو بہت دن سے تلاش تھی ، تلاش کہ ماہ کنعان کے بعد چاند کدھر کو نکلا ۔ تلاش ، کہ اس دور ابراہیم کس گھر میں اترے ، تلاش کہ اب کے سراج منیر کس بستی کے افق پر طلوع ہوتا ہے ……..سو تلاش میں وہ بارہا ہمارے حضور کے ہاں بھی چلا آتا …

ہر دن اس کے اندر روشنیوں کا شہر آباد ہو رہا تھا ….. لیکن کچھ بے کلی کہ پرکھوں کے اور نسلوں کے عقاید آسانی سے بدلنا کہاں ممکن ہوتا ہے ؟

سو تلاش مزید تلاش میں بدل رہی تھی ……

ایک روز مجلس جمی تھی کہ دور دراز سے ایک آدمی ہمارے حضور کی مجلس میں آیا – اس نے آن کے اپنا بتایا اور قبیلے کے حالات سنائے ..اور عرض کی کہ :

” حضور ، ہمارے علاقے میں قحط سالی ہے ، میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اسلام قبول کر لو اللہ بہت رزق دے گا …مجھے ڈر ہے کہ پیٹ کی آگ ان کو مرتد نہ کر دے کہ ایمان ابھی کمزور ہے اور دل کچے ….سو حضور اگر کچھ عنایت ہو جاے تو بستی کا ایمان سلامت رہ جائے گا ”
آپ صلی اللہ علیه وسلم نے پاس موجود سیدنا علی کی طرف نگاہ کی کہ نگاہوں میں سوال تھا کہ بیت المال میں کچھ ہے اور سیدنا علی کی خاموشی نے سب کچھ واضح کر دیا کہ گو دامن دل تو ایمان سے معمور ہے لیکن جیب خالی ہے ……

ماحول میں خاموشی نے اس کی تلاش کو موقع دے دیا ..جی یہ زید بن سعنہ تھے ..کہ جن کو تلاش لیے لیے پھرتی تھی …جھٹ سے پیشکش کی کہ :

"جناب فلاں باغ کی کھجوریں میرے نام کیجئے کہ پکنے پر میری ہوں گی اور قیمت مجھ سے ابھی لیجئے اور اپنی ضرورت پوری کیجئے ”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا اور بس یہ تبدیلی کی کہ :

” کسی باغ کی مخصوص نھیں ہوں گی لیکن کھجوریں ، جہاں سے ممکن ہوا ، آپ کو مل جائیں گی ”

سودا ہو گیا …لیکن یہ کھجوروں کا سودا نہیں تھا بلکہ کھجوروں سے بڑھ کے سودا ہوا تھا …..

سونے کے اسی دینار زید نے نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم کے ہاتھ رکھے ، معاہدہ کیا اور آپ نے سونے کے دینار ان صاحب کو دیئے کہ جلدی اپنی قوم کے پاس جائیں اور ان کی مدد کریں ……

دن گزرتے گئے کہ دنوں نے تو گذرنا ہی ہوتا ہے …

ایک روز صاحب وحی اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ بقیع کے قبرستان کسی جنازے میں گئے ..تدفین ہو چکی کہ کسی نے آپ کے کندھے کو چھوا ..لیکن یہ محض چھونا نہ تھا ، قیامت ہو گئی کہ چھونا شدید جھٹکے میں بدل گیا …زید نے آپ کی کندھے کی چادر کو کھینچا اور اس قردر زور سے کھینچا کہ گردن کو رگڑتے ہوے اس کے ہاتھ میں ا گئی …مگر صاحب وحی اس افتاد پر گھبرائے نہ الجھے …حیرت ضرور رہی ہو گی کہ آخر مجلس میں موصوف کا آنا جانا تھا لیکن ابھی کچھ اور بھی باقی تھا –

زید نے نے بہت تلخ رو ہو کے کہا :

"اد ما علیک من حق و من دین یا محمد ! فواللہ ما علمتکم یا بنی عبد المطلب ، اعلی مطلا فی ادا الحقوق و سداد الدیون ”

یہ لفظ نہ تھے گویا سیسہ تھا کہ پگھلا ہوا ہو اور کانوں میں اترا جا رہا ہو ….سچی بات ہے اگر کوئی مجھ سے ایسا کہے تو اگر میں بدزبانی نہ بھی کروں شائد کوئی شے ضرور اس کو دے ماروں ……لیکن آمنہ کے معصوم پر جانے کیا کیا مصیبتیں ٹوٹی تھیں کہ دل ٹہر چکا تھا ، ابھی کل کی ہی تو بات تھی کہ مکے میں لوگ ان کو مجنون تک کہہ چھوڑتے تھے ، تب کیسے نہ دل کٹ کٹ جاتا ہو گا ..آج ہم معمولی سی مصیبت کو لے کر کے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ، کبھی آنسو کبھی شکوہ ، کبھی زمانے کی شکایت …جی زید نے کہا :

” محمد میرا قرضہ واپس کر ، اللہ کی قسم تم جو عبد المطلب کی اولاد ہو نا ، جان بوجھ کے حقوق اور قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہو ”
جن کندھے سیے چادر اتری ، وہ تو مسکراتے رہ گئے لیکن ساتھی غضب ناک ہو گیے ….سیدنا عمر طیش میں گئے ، بہت کچھ کہہ ڈالا ، قریب تھا کہ ہاتھ اٹھا لیتے کہ صاحب وحی نے روک دیا :

"عمر دھیرج دھیرج …ایسی بات تو نہ کہو …. تمہیں تو مجھ سے کہنا چاہیے تھا کہ میں اس کا قرض ادا کرتا اور اس کو کہا ہوتا کہ عمدہ طور پر تقاضا کرتا ”

پھر سیدنا عمر کو ہی حکم دیا کہ ان صاحب کو لے جا کے ان کا قرض ادا کیجئے اور ہاں یہ بھی حکم تھا کہ بیس صاع بڑھا کے دیجئے گا کہ :
"یہ اس "زیادتی ” کا بدل ہے جو دھکمی کی صورت آپ نے کی ہے ”

جی ہاں سیدنا عمر کی تلخ نوائی کا "قرض ” بھی ساتھ ہی ساتھ چکا دیا …کبھی آپ نے اس سنت پر عمل کیا ہے کہ کوئی آپ سے تلخ تر ہو کے بات کرے اور آپ اپنے الفاظ کا بھی جرمانہ ساتھ ہی ساتھ ادا کرتے جائیں …..؟

سیدنا عمر ان صاحب کو ساتھ لے کے بیت المال کو چلے اور حسب حکم قرض سے پچاس کلو کھجور مزید ادا کر دیں ….

پلٹ کے مگر زید نے جب کہا :

"عمر آپ مجھے جانتے ہیں ؟”

تو اجنبیت بھری نظروں نے آپ نے نفی میں سر ہلا دیا …

"عمر میں زید بن سعنہ ہوں ”

اب حیران ہونے کی باری سیدنا عمر کی تھی .

".ارے وہی زید کہ مشہور یہودی عالم …”

"ہاں ہاں ، وہی ہوں نا میں ”

"اچھے عالم ہو …صاحب علم ہو اور صاحب وحی سے یوں بدزبانی ”

"اسی لیے تو کی نا کہ عالم ہوں ”

سیدنا عمر کی حیرت دو چند .

"بھلا یہ کیا بات کہ عالم ہوں اس لیے بدزبانی کی ”

"سنیے جناب عمر ////// مدتوں سے تلاش میں تھا ، کھوج تھی کہ دل کو بے چین کیے دے رہی تھی ….آرزو کہ اس بار بھی چاند اسحاق کی بالیں پہ چمکے …. لیکن مقدر آل اسمٰعیل کے روشن تر تھے …خیر دل کو سمجھایا اور ہر طرح سے دیکھا ، پرکھا ، اور جانچا …یہی خبر ہوئی کہ یہی ہیں ہاں یہی آخری نبی ہیں …ایک آخری آزمائش کو مگر دل چاہا کہ ان کا حلم دیکھا جائے کہ آخری نبی کی نشانی ان کا صبر ، حلم بھی ہو گا …..آخری دو نشانیاں ہاں سیدنا عمر آخری دو نشانیوں کی تلاش تھی …کہ ان کا تحمل ان کے غصے پر غالب ہو گا اور یہ کہ جیسے ان کے ساتھ بدزبانی کی جائے گی تحمل کا سیلاب امڈتا چلا جایے گا …جی میرے دوست آج یہ بھی دیکھ لیا ….چلیے عمر آئیے حضور کی جانب چلتے ہیں کہ ہمارے حضور سا کوئی نہیں ”

"اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ "

Comments are closed.