"میں خود معاشرہ ہوں،مگر میں اپنی برائی چھپا کر دوسروں کی نشاندہی کرتا ہوں”
تحریر:ملک ظفراقبال بھوہڑ
آج ہم اپنے معاشرے کے وہ خدوخال آپ کے ذوقِ مطالعہ کے لئے رکھیں جو یقیناً آپ کو بھی اچھے لگیں گے مگر عملاً کچھ نہیں ہوگا کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم دوسروں پر تنقید کرتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکنے سے گریزاں ہیں ۔جی ہاں یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر شخص کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے۔ معاشرتی اصلاح کی راہ اسی وقت کھلتی ہے جب انسان اپنی ذات کا محاسبہ کرے، بجائے اس کے کہ ہر وقت دوسروں پر انگلی اٹھائے۔
میں خود معاشرہ ہوں، مگر میں اپنی برائی چھپا کر دوسروں کی نشاندہی کرتا ہوں مگر ہمیں ضرورت کس چیز ہے۔

خود احتسابی کی ضرورت . جواصلاح کی پہلی شرط
ہم اکثر کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بگڑ گیا ہے، لوگ برے ہو گئے ہیں، ایمانداری ختم ہو گئی ہے، اور اخلاقیات ناپید ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ "معاشرہ” کون ہے؟ یہ لوگ کون ہیں؟ اگر ہم غور کریں تو جواب واضح ہے — "یہ معاشرہ میں خود ہوں، آپ خود ہیں، ہم سب ہیں۔”
مگر سچ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ دوسروں کی برائیوں پر تو تنقید کرتے ہیں، مگر جب اپنی باری آتی ہے، تو ہم یا تو خاموش ہو جاتے ہیں یا دفاع میں آ جاتے ہیں۔ ہم دوسروں کے جھوٹ، فریب، کرپشن، ریاکاری اور بدتمیزی پر تو چیختے ہیں، مگر اپنے جھوٹ، چغل خوری، حسد، بغض اور خود غرضی کو "چالاکی” یا "مجبوری” کا نام دے دیتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خود احتسابی کیا ہے
اسلام نے فرد کو معاشرے کی اصلاح کا پہلا قدم قرار دیا۔ قرآن و حدیث میں بارہا "نفس کا محاسبہ” کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

قرآن:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ…”
(سورۃ المائدہ: 105)
ترجمہ: "اے ایمان والو! اپنی ذات کی فکر کرو…”
حضرت عمر بن خطابؓ کا قول:
"اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے…”

حدیث نبوی ﷺ:
"مومن اپنی خطاؤں پر نگاہ رکھتا ہے، اور منافق دوسروں کی برائیاں تلاش کرتا ہے۔”
دوسروں کی نشاندہی، اپنی برائی سے فرار ہے
ہم دوسروں کو نصیحت کرنے کے شوقین ضرور ہیں، مگر خود عمل سے محروم ہیں
ہم کہتے ہیں لوگ جھوٹ بولتے ہیں،
مگر خود سچ چھپاتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں لوگ بدعنوان ہیں،
مگر خود سفارش اور رشوت کو "ترجیحات میں شامل کرتے ہیں
ہم کہتے ہیں قوم تباہ ہو رہی ہے،
مگر خود وقت، بجلی، پانی، وسائل ضائع کرتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں: نوجوان بگڑ گئے ہیں،
مگر ان کے سامنے ہم نے کون سی اچھی مثال قائم کی؟
اصلاح کا آغاز خود سے تو معاشرے میں مثبت تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں

اگر ہر فرد یہ سوچ لے کہ:
مجھے سچ بولنا ہے، چاہے نقصان ہو
مجھے اپنا وعدہ نبھانا ہے، چاہے مشکل ہو
مجھے اپنے اندر کی کینہ پروری اور خود غرضی کو ختم کرنا ہے
مجھے تنقید سے پہلے اپنا کردار درست کرنا ہے
تو صرف ایک شخص کی اصلاح نہیں ہوگی، بلکہ ایک نیا معاشرہ جنم لے گا۔
آئیں چند عملی قدم خود کو بدلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں

روزانہ اپنا محاسبہ کریں:
آج میں نے کیا غلط کام کیا؟ کسی کا دل تو نہیں دکھایا؟ کوئی وعدہ توڑ تو نہیں دیا؟
تنقید سے پہلے خود پر نظر ڈالیں۔
جو بات میں دوسروں کو کہہ رہا ہوں، کیا وہ مجھ پر بھی لاگو ہوتی ہے؟
سوشل میڈیا پر دوسروں کو نہیں، خود کو درست کریں:
کسی پر تنقیدی پوسٹ لگانے سے پہلے سوچیں کہ میں خود کہاں کھڑا ہوں؟
اپنے بچوں، شاگردوں یا کارکنوں کے سامنے اپنی اصلاحی مثال بنیں۔

معافی مانگنا سیکھیں:
اپنی غلطی تسلیم کرنا کمزوری نہیں، بلکہ انسانیت کی معراج ہے۔
ہم سب چاہتے ہیں کہ معاشرہ بہتر ہو، لوگ نیک ہوں، جھوٹ، فریب، کرپشن ختم ہو۔
لیکن اگر ہم خود کو تبدیل نہیں کرتے، اور صرف دوسروں کی کمزوریوں کو نشانہ بناتے ہیں، تو یہ رویہ معاشرتی بگاڑ کو اور بڑھائے گا۔
یاد رکھیں،
"معاشرہ وہ نہیں جو ہم تنقید سے بدلیں، بلکہ وہ ہے جو ہم کردار سے سنواریں۔”

لہٰذا، آئیں آج سے عہد کریں:
"میں خود معاشرہ ہوں، اور تبدیلی کا آغاز میں خود سے کروں گا!”
امید ہے آپ کو آج کا موضوع پسند آیا ہوگا اور تبدیلی بھی انشاء اللہ

Shares: