انسان اللہ کریم کی بنائی ہوئی ایک اعلی تخلیق ہے.
پھر اچھے برے کا شعور دیا. اللہ کریم نے خود قرآن مجید میں ارشاد فرمایا. کہ ہم نے انسان کو بڑی خوبصورت شکل میں پیدا کیا.
پھر اسی انسان کو اللہ نے فرشتوں پر فضیلت عطا کی. انسان کو علم سکھایا اور فرشتوں سے سجدہ کروایا.
یہ سب کیوں کیا گیا؟
قرآن کریم میں اللہ کریم نے
ارشاد فرمایا.
اور میں نے جن اور انسان اسی لئے پیدا کیے ہیں کہ وہ میری عبادت کریں۔سورۃ الذاریات، آیت56.
اگر رب کریم کی عطائیں اور نعمتیں شمار کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا وجود انگنت عجوبوں کو سمیٹ کر بنایا گیا ہے. منہ کہ اندر رکھی زبان کی ہی بات کی جائے تو گرم اور ٹھنڈک کا احساس لیے یہ زبان مختلف زائقوں کی الگ الگ پہچان رکھتی ہے. اگر حرکت کرے تو الفاظ کا تسلسل اسے دوسرے انسانوں سے گفتگو کا شرف بھی بخشتی ہے. جب پیٹ کی بھوک مٹانی ہو یہی زبان دانتوں کی مشینری میں گاہے بگاہے خوراک فیڈ کرتی اور اسے پیسنے میں مدد کرتی دکھائی دیتی ہے. حیرت کی بات ہے صرف ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اتنی صلاحیتوں سے بھرپور میرے رب کے عطا کیے ہوے کسی عجوبے سے کم نہیں. انسان کا ہر عضو اس طرح کے بے مثال عجوبوں کا مجموعہ ہے.
اس سب کی شکر گزاری کے لیے اللہ رب العزت مختلف ادوار میں انبیاء کرام علیہم السلام کے زریعے مختلف تحائف _عبادت عطا کیے تو اس امت کو نماز جیسا تحفہ عطا فرمایا.
ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تحفہ کی اہمیت میں اور اضافہ فرمایا.
جیسا کہ
1. نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے.
2. جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا
3. مومن اور کافر میں فرق نماز کا چھوڑ دینا ہے
4. نماز مومن کی معراج ہے.
معراج ایک ایسی خصوصیت ہے جس میں رب سے ملاقات کا شرف کا شرف انسان کو ملتا ہے. کیسی شان کریمی رب العالمین کی اور تربیت رسول ختم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح اس تحفہ کا حق ادا کر کے دکھایا لا جواب ہے. جس سر کو اونچا رکھنے کے لیے انسان زمانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے دکھتا ہے رب کریم کے سامنے زمین پر رکھ کہ اسکی بڑائی بیان کرتا ہے. یہ حسن عبادت یقیناً اللہ کی شکر گزاری کے لیے دئیے کسی تحفے سے کم نہیں.
معراج کو معراج کے درجے تک لیجانا انسان کا کام ہے. کم از کم یہ احساس ضرور دل میں ہو کہ رب کریم کے سامنے کھڑا ہوں. دنیا کے صاحب کے سامنے اچھے کپڑوں اعلی جوتے نایاب خوشبو کا استعمال کرنے والے اس رب کریم جو کہ اس صاحب کا بھی رب ہے جو اس بھی رزق اور عزت دیتا ہے کے سامنے جاتے وقت کم از کم اسی طرح کا اہتمام کیا کریں. بارگاہ رب العالمین ہے مزاق تو نہیں. یہ احساس تو کم از کم ہو کہ میں دو جہان کے رب کے سامنے کھڑا ہوں. اس سے اعلی درجہ ہے اس چیز کا احساس کہ جس کے لیے فرشتوں کی صفیں رکوع و سجود میں مشغول وہ میری نماز کو بھی دیکھ رہا ہے. جیسے جیسے انسان رب کریم کے پاس ہوتا چلا جاتا ہے رب العالمین اس پر عنایتیں بڑھاتا چلا جاتا ہے.
اس سے اعلیٰ مقام ہے انسان جو بول رہا ہو جس چیز کی گواہی زبان دے دل بھی اس کی شہادت دے رہا ہو. زبان بولے
الحمد للہ رب العالمین تو دل رب العالمین کی اس رب ہونے کی شان کو پورے وثوق سے تسلیم کرتا دکھائی دے. دل اتنا موم ہو جاے جیسے روئی کا گالہ. روح رب کے سامنے اقرار بندگی کرنے لگے. جسم رب کی اس شان کے اقرار میں طائب نظر آے.
سوچئے ابھی تو یہ احساس ہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا اور سن رہا ہے. اور میرا جسم روح زبان دل سب اسی کی بندگی میں لگ گئے. بتائیں دنیا تو کہیں دور رہ گئ. یہ تب ہی ہوگا جب آپ پہلی منزل سر کریں گے کہ میں رب کے سامنے کھڑا ہوں. جس کے سامنے حشر میں کھڑا ہونا ہے. جس نے سارا کاشانہ_جہاں چلا رکھا ہے.
اس سے آگے معراج کی کامل منزل شروع ہوتی ہے. جس میں یہ احساس ہوتا ہے. میں رب سے ملاقات میں ہوں میرے منہ سے الفاظ نکلتے ہی رب العالمین کے سامنے عاجزی پیش کر رہے ہیں. فاصلے بلکل ختم. بات آمنے سامنے تک آ پہنچی. احساس کی انتہا ہے. بندہ رب العالمین سے محو گفتگو سامنے حاضر ہے عبادت کا عالم کہ دنیا چھوڑ آیا کہیں دور اس کے خیالات ختم بس وہ اور رب العالمین کے سامنے عاجز جسم عاجز روح تعبیدار دل لیے رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ کی سدا بلند کرتے جھک جاتا ہے. تو دل گواہی دے پاک ہے میرا پروردگار عظمت والا. سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہْ پکارتا ہے. دل تلملا اٹھے میرے اللہ تعالیٰ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی. زبان اور دل کا یہ تال میل دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے زیادہ سکون روح کو مہیا کر جاتا ہے. پھر جب دنیا کی ساری عزتیں سٹیٹس رتبے بھول کر سر رب کے سامنے لا رکھتا ہے اور اپنے رب کو پکارتے ہوے کہتا ہے. سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلٰی پاک ہے میرا رب جو بلند ترہے. تو دنیا اس کے سامنے زیر ہو جاتی اور ہر جگہ ایک کی ہستی کا ساتھ دکھتا ہے. پھر جب دل اس پر شہادت کی ضرب ثبت کرتا ہے تو روح اپنی حقیقی مٹھاس کو حاصل کرتی بندے کو اپنا من ہلکا لگنے لگتا ہے. پھر تشہد میں رب سے مکالمے کا سلسلہ اس کے نکھار کو بڑھاتا چلا جاتا ہے. دل میں کیے اعمال کی ندامت آنکھوں سے بہتا آئندہ فرمانبرداری کا عزم. رب العالمین کے سامنے اسی کو کل عالم کا مختار سچے دل سے ثابت کرنے کے بعد جب تشہد میں انسان اب رب کے سامنے بخشش مانگتا ہے. میرا رب بڑا کریم ہے بخشش بھی دیتا ہے پھر سے آنے کی توفیق بھی دیتا ہے اور یہ احساس بھی کہ تو جس کے سامنے بیٹھ گیا ہو نا مراد نہیں لوٹاتا. بہتر نہ ہو بہتر کر کے دیتا ہے. بہنو بھائیو عبادت _ الہی کا تقاضہ سمجھیے اپنی عبادت کو کامل بنائیے. اللہ رب العزت نے اپنے نبی کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے بٹھا کر معراج کرائی یہ وہی احساس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو دیا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سر کی آنکھوں سے ظاہری بدن سے معراج کرایا گیا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان نبوت ہے. امت کو وہی مکالمہ تحفہ میں دیا گیا جو معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں رب العالمین جلالہ اور رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا. عبادت کے تقاضوں کو سمجھیے. عبادت کو کامل بنائیے. رب العالمین سے تعلق ایسا بنائیے کہ کل بروز قیامت جب ملاقات ہو رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں تو شوق دیدار سے آنکھ چھلکے. آج اس رب العالمین کی دید ہو گی جسکے سامنے ہونے کا احساس لیے رکوع و سجود سے روح کو سکون دیتے رہے.
@EngrMuddsairH