اسلام آباد: پاکستان کے کمپٹیشن کمیشن نے دو معروف کمپنیوں پر بھاری جرمانہ عائد کر دیا ہے جنہوں نے اپنی "فروزن ڈیزرٹس” کو آئس کریم کے نام سے مارکیٹ کیا۔
ان کمپنیوں میں سے ایک عالمی سطح پر مشہور "والز” کا بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنی اور دوسری "او مور” بنانے والی کمپنی شامل ہیں۔ دونوں کمپنیوں پر 75-75 ملین روپے کے جرمانے عائد کیے گئے ہیں کیونکہ انہوں نے جھوٹے طریقے سے "آئس کریم” کے طور پر اشتہار دیا تھا۔ اس کے علاوہ، ملٹی نیشنل کمپنی پر 20 ملین روپے کا اضافی جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے کیونکہ اس نے اپنی مصنوعات کو دودھ پر مبنی آئس کریمز سے زیادہ صحت مند ظاہر کرنے کے لیے جھوٹے موازنوں کا استعمال کیا تھا۔
یہ کارروائی پاکستان فروٹ جوس کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کی شکایت پر کی گئی، جو "ہائیکو” آئس کریم تیار کرتی ہے۔ کمپنی نے الزام عائد کیا تھا کہ دونوں کمپنیاں ٹی وی اشتہارات اور سوشل میڈیا پر آئس کریم کے طور پر پیش کر کے صارفین کو گمراہ کر رہی ہیں، جس سے مارکیٹ میں غیر منصفانہ مقابلہ پیدا ہو رہا تھا۔
کمیشن کے مطابق، یہ دونوں کمپنیاں اپنی مصنوعات کو آئس کریم کے طور پر فروخت کر رہی تھیں حالانکہ ان میں دودھ کی مقدار بہت کم تھی اور ان میں دیگر اجزا جیسے ویجیٹیبل آئل اور فیٹس شامل تھے جو آئس کریم کی مخصوص ساخت کے مطابق نہیں ہیں۔کمپٹیشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایک کمپنی پر 95 ملین روپے اور دوسری کمپنی پر 75 ملین روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ عوامی فریب سے بچانے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ صارفین کو درست معلومات فراہم کی جا سکیں۔کمپٹیشن کمیشن نے اپنی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے لائی کہ دونوں کمپنیوں نے اپنے پروڈکٹس کی مارکیٹنگ میں شفافیت کا فقدان رکھا اور انہیں "آئس کریم” کے طور پر پیش کیا، حالانکہ ان کی مصنوعات میں دودھ کی مقدار کم اور دیگر اجزا شامل تھے جو آئس کریم کی تعریف کے مطابق نہیں آتے۔
کمیشن کے مطابق، فوڈ کوالٹی اسٹینڈرز کے تحت آئس کریم صرف دودھ اور دیگر ڈیری پراڈکٹس سے تیار کی جاتی ہے، جبکہ فروزن ڈیزرٹس میں ویجیٹیبل آئل اور دیگر فیٹس کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ آئس کریم کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتے۔کمپٹیشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ دونوں کمپنیوں کو اپنی مصنوعات پر "فروزن ڈیزرٹ” اور اس میں استعمال ہونے والے اجزا کا واضح طور پر ڈسکلیمر فراہم کرنا چاہیے تاکہ صارفین کو مکمل معلومات مل سکیں اور وہ گمراہ نہ ہوں۔کمیشن نے یہ بھی کہا کہ کمپنیوں کی جانب سے آئس کریم کے نام پر فروزن ڈیزرٹس کی فروخت کے ذریعے مارکیٹ میں دھوکہ دہی کا رجحان پیدا ہو رہا تھا، جو کہ نہ صرف صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مارکیٹ کی شفافیت پر بھی اثر انداز ہو رہا تھا۔کمپٹیشن کمیشن نے اس موقع پر کمپنیوں کو متنبہ کیا کہ وہ آئندہ ایسے اقدامات سے گریز کریں اور قانون کے مطابق اپنے پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کریں۔
پاکستان میں فوڈ کوالٹی اسٹینڈرز کی پابندی ضروری ہے تاکہ صارفین کو صحت مند اور معیاری مصنوعات فراہم کی جا سکیں۔ آئس کریم کی تیاری میں دودھ اور ڈیری پروڈکٹس کا استعمال ضروری ہے، جبکہ فروزن ڈیزرٹس میں دیگر اجزا، جیسے کہ ویجیٹیبل آئل، استعمال کیے جاتے ہیں جو آئس کریم کی ساخت اور معیار سے مختلف ہوتے ہیں۔اس اقدام سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ کمپٹیشن کمیشن پاکستان میں مارکیٹ کی شفافیت کے لیے فعال کردار ادا کر رہا ہے تاکہ صارفین کو معیاری اور درست مصنوعات فراہم کی جا سکیں۔
عمران خان کی رہائی کے لئے ٹویٹ کرنے والا رچرڈ گرنیل کا اکاؤنٹ جعلی
واضح ہو گیا کہ نو مئی کا ماسٹر مائند بانی چیئرمین پی ٹی آئی تھا ،عطا تارڑ