معیشت تو حکومت کے لیے پہلے دن سے مسئلہ تھا لیکن کئی سال انہوں نے یہ کہہ کر گزار لئے ہیں کہ یہ ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور لوٹ مار کا نتیجہ ہے لیکن اب یہ دلیل بھی کافی کمزور ہو گئی ہے اور مہنگائی نے تو سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور حکومت کے پاس اس کا کوئی حل نہیں۔ ۔ صرف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران گھی، دال، انڈے، دودھ، دہی، گوشت اورچائے سمیت 27 اشیاء مہنگی ہوچکی ہیں۔ یوں صرف گزشتہ سات دنوں کے دوران مہنگائی میں 1.07 فیصد مزید اضافہ ہوا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 18.34
فیصد تک پہنچ گئی ہے۔۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر عمران خان اعلان کرتے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے آٹا، چینی اور گھی بآسانی دستیاب ہوگا جنھیں عوام کی سہولت کے لیے ہر گلی محلے میں نصب کیا جا رہا ہے۔ عوام جائیں، معمولی سی رقم ڈالیں اور مقررہ مقدارمیں آٹا، چینی اور گھی نکال کرگھروں کو لے جائیں۔ مگرلگتاہے کہ ان مشینوں سے بھی کرپٹ سیاستدان ہی نکلیں گے۔ روبوٹ ہی نکلیں گے۔ پھر حکومتی وزیر جیسے فرخ حبیب جتنے مرضی دعوے کر لیں ٹویٹس کردیں کہ ایکسپورٹس ایسی بڑھ گئی ہیں کہ پتہ نہیں پی ٹی آئی نے کون سا معرکہ مار لیا ہے ۔ ۔ پر سچ یہ ہے کہ معاشی اعشاریئے مسلسل منفی جا رہے ہیں اب ڈالر 177 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ پھر جیسے ہی سردی کا زور بڑھا ہے گیس بالکل غائب ہوگی ہے جیسے کبھی تھی ہی نہ ۔۔۔۔ الٹا شہباز گل سمیت حماد اظہر اپنی نااہلی ماننے کے بجائے شاہ زیب خان زادہ سے اڈا لگا کر بیٹھ گئے ہیں کہ سب اچھا ہے ۔ کہ میڈیا ان کے خلاف سازشیں رچ رہا ہے ۔
۔ اس وقت شاید ہی کوئی ہو جو حکومت کو آڑے ہاتھوں نہیں لے رہا کیونکہ کارکردگی ہی ایسی ہے ۔ بڑے بڑے کالم نگار اور اینکرز حکومت کے خلاف لکھ رہے ہیں بول رہے ہیں ۔ بالکل وہ بھی جو حکومت کے سب سے بڑے حمایتی تھے ۔ وجہ یہ ہے کہ عوام بلبلا رہے ہیں۔ پھر بھی باہر سے آئے ہوئے ترجمان بضد ہیں کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور کپتان روز چوکا چھکے لگا رہا ہے ۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت نے عوام کے چھکے چھڑا دیے ہیں ۔ ۔ دعویدار تو یہ ریاست مدینہ کے ہیں پر آئے دن شرح سود میں اضافہ کرکے ملکی معیشت کو ریورس گئیر لگا رہے ہیں ۔ اب ایک بار پھر تیزی سے شرح سود بڑھائی جارہی ہے۔۔ ان کی ورداتوں پر سے پردہ میں ہٹا دیتا ہوں۔ فیصلہ آپ خود کر لینا ۔ پچھلے دنوں جب چینی کے ریٹ چند دن کے لیے ڈیڑھ سو روپے فی کلو سے اوپر چلے گئے تو شوگر مافیا نے ان چند دنوں میں کم از کم 60ارب روپے کما لیے تھے۔ اور پھر جب اس سال کے آغاز میں آٹا بحران لایا گیا تو اُس وقت بھی مافیا نے 100ارب روپے سے زائد کما لیے تھے۔ اس کے علاوہ جب پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا تب بھی ایک رپورٹ کے مطابق 130ارب روپے کا ناجائز منافع کمایا گیا۔
۔ یہ ہے تبدیلی
۔ یہ ہے مافیا کے خلاف کاروائیاں
۔ یہ ہے ریاست مدینہ
۔ یہ ہوتا ہے سمارٹ ورک
۔ یہ ہوتا ہے وژن ۔ اب سمجھ آئی ۔۔۔
۔ یہ ہے نیا پاکستان ۔۔۔ جہاں سے اربوں روپے کمانا اتنا مشکل نہیں رہا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو سمارٹ ورک آتا ہو۔
۔ آج ساڑھے تین سال بعد یہ حالت ہے کہ حکومت کو لانے والے بھی خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔ مسئلہ صرف معاشی محاذ پر ہی نہیں۔ بلکہ ہر محکمہ ہر ادارے میں ریسوس گیئر لگ چکا ہے ۔ معاشی کے بعد سیاسی ماحول کی بات کی جائے تو وہ بھی منفی اشارے دے رہا ہے۔ تمام تر حربوں اور نیب کے استعمال کے باوجود ن لیگ سمیت پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک بھی قائم ودائم ہے ۔ ساتھ ہی حکومت کے دعوے کے ان کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکلوائیں گے ۔ یہ ایک دھیلا بھی نہیں نکلوا پائے ہیں ۔ الٹا براڈ شیٹ سمیت برطانیہ میں ریاست پاکستان کو بےعزت کروابیٹھے ہیں ، پھر عالمی،علاقائی اور داخلی حالات کے باعث اسٹیبلیشمنٹ بھی اب اپوزیشن سیاسی جماعتوں سے بات کرنے پر مجبور ہے۔ مگر اب تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا، دراصل سیاست دو اور دو چار کا کھیل نہیں بلکہ سیاست بہت وسیع اور پیچیدہ کھیل ہے۔ کرپشن کے علاوہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف یہ بھی بڑی دلیل دی جاتی ہے کہ بڑی جماعتوں میں موروثیت حاوی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نے باریاں لگائی ہوئی تھیں یعنی دو پارٹیوں کا نظام بھی قابل قبول نہیں حالانکہ ان کی اپنی جماعت میں جو موروثیت ہے وہ کسی سےڈھکی چھپی نہیں ۔ جو عمران خان نے دسیوں بار چلے ہوئے کارتوس اپنے جماعت میں اکٹھے کیے ہوئے ہیں اس بارے بھی سب ہی جانتے ہیں ۔ پھر اپوزیشن تو ابھی سے کہہ رہی ہے حکومت نے ووٹنگ کے طریقہ کار کو بدل کے دھاندلی کی بنیاد رکھ دی ہے، چلیں آج کی سن لیں آج جہاں پی ڈی ایم نے پشاور میں پاور شو کیا تو مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے شہزاد اکبر، زلفی بخاری اور شہباز گِل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے لیے باقاعدہ قانونی کاروائی کی نوید سنادی ہے ۔ پھر یہ کہہ کر تو حکومت کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے کہ وزارت داخلہ کی توجہ کہیں اور ہے۔ جہاں شیخ رشید وزیر ہوں وہاں کا حال کیا ہوگا۔ ان کا اشارہ حریم شاہ اور شیخ صاحب جو گفتگو بارے تھا جو سامنے آئی ہے ، پھریہ کہہ کر شہزاد اکبر کو بھی خوب رگڑا لگایا کہ جس دور میں چینی 55روپے تھی اس کے کیس بنا دیے۔ اب سو روپے ہے تو کچھ نہیں کیا۔
۔ اب مولانا فضل الرحمان تو کوئی رعایت نہیں دے رہے ہیں انھوں نے تو کہہ دیا ہے کہ عمران خان غیروں کے ایجنٹ تو ہوسکتےہیں عوام کے نمائندہ نہیں۔ پھر کشمیر ، قانون سازی ، مہنگائی ، ریاست مدینہ ، آئی ایم ایف سمیت کون سی ایسی چیز تھی جس پر انھوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں نہیں لیا ۔ تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مہنگائی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تشویشناک بات وزیراعظم اور وزراء کا جھوٹ بولنا ہے۔ ایوان کو جان بوجھ کر مفلوج کر دیا گیا ہے ۔ دوسری جانب انتخابی عمل میں ترمیم کے باوجود یہ بات وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ ای وی ایم کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے کا حکومتی مقصد باآسانی پورا ہو جائے گا کیونکہ ایک طرف اگر اپوزیشن کو تحفظات ہیں تو الیکشن کمیشن بھی پوری طرح مطمئن نہیں بار ایسوسی ایشنوں میں بھی اِس حوالے سے مخالفت اور بے اطمینانی موجودہے ۔ مسئلہ implementationکا ہے ۔ اس وقت ای وی ایم اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے معاملے پر الیکشن کمیشن واضح طور پر تذبذب کا شکار ہے ۔ مجھے نہیں لگتا یہ ہو پائے گا ۔ کیونکہ سیکرٹری الیکشن کمشن کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ آئندہ عام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کا پابند نہیں۔ اس پر الیکشن کمشن حکام کے مطابق ووٹنگ مشین متعارف کرانے سے پہلے 14تجرباتی مراحل سے گزرنا ہو گا۔ تین یا چار پائلٹ پراجیکٹ مکمل کرنا ہوں گے۔ پھر انھوں نے سوال اٹھایا ہے کہ جہاں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہو گی وہاں ووٹنگ مشین کیسے کام کرے گی۔ حکومت کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ ووٹنگ مشین کو انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں تاہم یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمشن کا عملہ الیکٹرانک مشین میں موجود نتائج کس طرح پریذائیڈنگ افسر یا الیکشن کمشن کو ارسال کرے گا۔
۔ پھر ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے بیک وقت انتخاب کے لیے تین لاکھ الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں درکار ہوں گی۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن نے دنیا بھر سے مختلف کمپنیوں کو مدعو کیا تھا۔ پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری کے لیے اربوں روپے درکار ہوں گے۔ اب پارلیمنٹ سے قانون سازی ہونے کے بعد اصولی طور پر الیکشن کمشن اس طریقہ کار کو مسترد نہیں کر سکتا۔ پر تیاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ تاخیر کا بہانہ ضرور بنا سکتا ہے ۔ یوں اب یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن نے اس مشین کا استعمال نہ کیا تو پھر پی ٹی آئی الیکشن کو نہیں مانے گی ۔ ہار گئی تو وہ دھاندلی کا شور مچائے گی ۔ پر اگر اس مشین کے ذریعے الیکشن کروایا جاتا ہے تو جہاں بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں آئندہ انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے تو شہباز شریف بھی ای وی ایم کو شیطانی مشن قرار دیتے ہیں اِن حالات میں پہلی بار انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ ملک میں اس وقت اضطراب اور ہلچل کی جو کیفیت ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ سٹیک ہولڈر مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ کسی تبدیلی کی صورت میں انہیں مکمل تحفظ اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو اور حالیہ سالوں میں ان کے کئے کرائے پر پر مٹی ڈال دی جائے۔ دیکھا جائے تو اس وقت اپوزیشن، آزاد میڈیا، ججوں، وکلا تنظیموں اور سول سوسائٹی نے مل کر ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ جس میں حکومت کی ہر حرکت اس کے وبال جان بن رہی ہے ۔ یاد رکھیں قدرت کا قانون حرکت میں آنے کے لیے کسی اجلاس اور مشورے کا پابند نہیں ہوا کرتا۔ آج ہر شعبہ، ہر ادارہ بے توقیر ہے۔ یہ موجودہ حکمرانوں کا تحفہ ہے کہ ہر شعبہ زندگی کے لوگ باہمی طور پر گھتم گھتا ہیں۔ ۔ عمران خان سنگاپور، ترکی، چین، ریاست مدینہ، سعودیہ، ارطغرل، بابر، صلاح الدین ایوبی نہ جانے کتنی کہانیاں اور فلمیں اس عوام کو دیکھا چکے ہیں ۔ اب عوام حکمرانوں کو فلم دیکھنے نہیں ۔۔۔ دیکھانے کی موڈ میں ہے