اب نہیں تو کب؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی کچہری میں خودکش دھماکہ اور جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں واقع کیڈٹ کالج پر خوارج کا وحشیانہ حملہ، یہ دو الگ الگ واقعات نہیں بلکہ ایک ہی سازش کا حصہ ہیں جو ہمارے ملک کی سلامتی کو چیلنج کر رہے ہیں۔کیڈٹ کالج وانا پر حملہ آور تمام خوارج کو جہنم واصل کردیا گیا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق کیڈٹ کالج پر حملہ آور ایک خودکش کے علاوہ چار خوارج کامیاب آپریشن کرکے جہنم واصل کیے گئے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق اس وقت کالج کی بلڈنگ کو بارودی سرنگوں کے خطرے کی وجہ سے کلیئر کیا جا رہا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کامیاب آپریشن کے دوران کیڈٹ کالج کے کسی بھی طالب علم یا استاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ سکیورٹی فورسز نے کالج میں موجود تمام طلبہ اور اساتذہ کو بحفاظت ریسکیو کرلیا۔ سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ کیڈٹ کالج پر حملے کے وقت 525 کیڈٹس سمیت تقریباً 650 افراد موجود تھے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان خوارج کی کالج میں موجودگی اور کیڈٹس کی جانوں کی حفاظت کے پیش نظر آپریشن نہایت احتیاط اور حکمت عملی سے کیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز افغان فتنہ الخوارج نے کالج کے مرکزی گیٹ سے بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی تھی، دھماکے سے کالج کا مرکزی گیٹ گرگیا اور قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق وانا کیڈٹ کالج پر حملہ کرنے والے خوارجیوں کا تعلق افغانستان سے بتایا گیا ہے اور حملہ آور ٹیلیفون پر وہیں سے ہدایات لے رہے تھے، خوارج ایک عمارت میں چھپے تھے جو کیڈٹس کی رہائش سے بہت دور تھی۔

علاوہ ازیں سکیورٹی فورسز نے 8 اور 9 نومبر کو خیبر پختونخوا میں دو الگ الگ کارروائیاں کیں جن میں بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 20 دہشت گرد مارے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا۔ آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے خوارج کے ٹھکانے کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں آٹھ بھارتی سپانسرڈ خوارج مارے گئے۔ سکیورٹی فورسز نے درہ آدم خیل میں دوسرا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا جس میں شدید فائرنگ کے تبادلے میں بھارتی سپانسرڈ مزید 12 خوارج مارے گئے۔ سکیورٹی فورسز کا علاقے میں پائے جانے والے کسی بھی ممکنہ بھارت کے حمایت یافتہ خارجیوں کو ختم کرنے کے لیے کلیئرنس آپریشن بھی جاری ہے۔

کل ہی کا دن یعنی 11 نومبر، جب اسلام آباد کی سیشن کورٹ کے باہر ایک خودکش دھماکہ ہوا تو 12 معصوم شہری شہید ہوگئے اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ یہ دھماکہ صرف ایک دہشت گردی کی کارروائی نہیں تھا بلکہ ریاست پاکستان کے اداروں پر براہ راست حملہ تھا جو دہشت گردوں کی طرف سے جاری اس جنگ کا تسلسل ہے جس کا آغاز افغان سرحد پار سے ہو رہا ہے۔ یہ حملے جو ایک دوسرے کے فوراً بعد ہوئے، پاکستان کی معاشی و انتظامی مسائل اور سرحدی علاقوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منصوبہ بندی کیے گئے تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گرد کہاں سے آ رہے ہیں؟ جس کاجواب واضح ہے کہ افغانستان۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر افغان دہشت گرد گروہوں کی جڑیں کابل کی موجودہ حکومت کی سرپرستی اور پناہ میں مضبوط ہو رہی ہیں۔ پاکستانی حکام نے بارہا کہا ہے کہ یہ حملے افغان سرزمین سے منصوبہ بندی کیے جاتے ہیں اور کابل کی طالبان حکومت ان دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ دیتی ہے بلکہ انہیں ہتھیار اور تربیت بھی فراہم کرتی ہے۔ وانا کے حملے میں بھی، جہاں خوارج نے کیڈٹس کو نشانہ بنایا، ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ حملہ آور افغان سرحد پار سے داخل ہوئے تھے اور ٹیلیفون پر وہیں سے ہدایات لے رہے تھے۔ اسلام آباد کے دھماکے میں استعمال ہونے والا گاڑی بم بھی اسی طرح کی سازش کا حصہ ہے جو سرحد پار سے کنٹرول ہو رہا تھا۔ یہ کوئی اتفاقی واقعات نہیں بلکہ یہ ایک منظم مہم ہے جو پاکستان کو کمزور کرنے اور اسے اپنے گھٹنوں پر لانے کا حصہ ہے۔

دوسری جانب بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں سلنڈر دھماکے کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک اور 24 زخمی ہو گئے جن میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔ دھماکے کی شدت سے قریبی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور متعدد گاڑیوں کو آگ لگنے سے شدید نقصان پہنچا۔ پولیس کے مطابق دھماکہ سی این جی سلنڈر پھٹنے سے ہوا لیکن بھارتی گودی میڈیا نے پولیس مؤقف کے برعکس ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے دھماکے میں پاکستانی کو ملوث قرار دے دیا۔ بھارت کی حکومت اور ذرائع ابلاغ مسلسل جھوٹ بول کر اپنے عوام کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کو بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے جھوٹ کا پول کئی بار کھل چکا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت براہ راست ملوث ہے جس کا اعتراف بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت ڈوول بھی کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان بھی کئی بار بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت مہیا کر چکا ہے۔ خطے اور دنیا کے امن کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے بھارت کی دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔

لیکن مسئلہ صرف سرحد پار کے افغان دہشت گردوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین، جو برسوں سے یہاں رہ رہے ہیں، ان حملوں کی اخلاقی اور عملی مددگار بن چکے ہیں۔ 1979 کی سوویت حملے کے بعد سے لے کر اب تک، پاکستان نے افغان مہاجرین کو پناہ دی، انہیں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے۔ مگر بدقسمتی سے، ان میں سے بہت سے عناصر نے ہماری مہمان نوازی کا بدلہ دہشت گردی اور غداری سے دیا ہے۔ آج پاکستان میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں اور ان میں سے کئی ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کے ہمدرد یا فعال ارکان ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف دہشت گردوں کو خفیہ جگہیں فراہم کرتے ہیں بلکہ ان کی مالی مدد، انٹیلی جنس اور حتیٰ کہ حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور یہ غیر ملکی جو ہماری سرزمین پر بیٹھ کر ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔

اب وہ گھڑی آن پہنچی ہے جب کسی بھی افغان کو رجسٹر کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، کیونکہ یہ ہمارے کھلے اور ننگے دشمن ہیں جن پر ذرہ برابر اعتبار نہیں کیا جا سکتا،دہشت گرد کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہوتے اور یہ وہی خونخوار درندے ہیں جو ہمارے بچوں کے جنازوں پر ناچتے ہیں! یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستان کے دل کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں افغان دہشت گردوں کے مکروہ نیٹ ورکس پھیلے ہوئے ہیں بلکہ انہی افغان بستیوں کے گھروں میں بم بنتے ہیں، انہی کی دکانوں پر ہتھیار چھپتے ہیں اور انہی کی مساجد سے جہاد کے فتوے نکلتے ہیں جو بعد میں اسلام آباد کی کچہریوں اور وانا کیڈٹ کالج پر گرتے ہیں! سرحدی علاقوں میں تو افغان مہاجرین کے کیمپ کھلے عام دہشت گردوں کی یونیورسٹیاں بن چکے ہیں جہاں بم بنانے کی ٹریننگ ہوتی ہے، خودکش جیکٹیں تیار کی جاتی ہیں اور نوجوانوں کو موت کا سوداگر بنایا جاتا ہے۔

اور سب سے بڑا المیہ یہ کہ ان خونخواروں کے مددگار اور ہمدرد ہمارے اپنے ہی پاکستانی ہیں،یہ وہ غدار ہیں جو جھوٹی ہمدردی کا لبادہ اوڑھے انہیں چھپاتے ہیں، ان کی مالی امداد کرتے ہیں، ان کیلئے جاسوسی کرتے ہیں بلکہ وہ جو مذہبی، قبائلی یا سیاسی بنیادوں پر "افغان بھائی” کا راگ الاپتے ہیں، دراصل پاکستان کے دل میں خنجر گھونپ رہے ہیں! یہ غدار جانتے ہیں کہ یہ افغان دہشت گرد ہمارے بچوں کو کاٹ رہے ہیں، ہمارے فوجی جوانوں کو شہید کر رہے ہیں، ہمارے مدرسوں اور عدالتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں،مگر اپنے ذاتی مفادات، کرپٹ سیاست یا غلط فکری جنون کی وجہ سے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ یہ ہمدرد نہیں بلکہ پاکستان کے کھلے دشمن ہیں اور ان کا انجام بھی وہی ہونا چاہیے جو دہشت گردوں کا ہوتا ہے!

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اس مہلک خطرے کا سامنا کرے اور بھرپور طاقت سے جواب دے۔ افغانی دہشت گردوں کے خلاف ایکشن تو ناگزیر اور فوری ہے، مگر یہ صرف سرحد پار بمباری تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان میں مقیم تمام افغانوں خواہ وہ رجسٹرڈ ہو یا غیر رجسٹرڈ سب کے خلاف فوری اور بے رحم کارروائی کی جائے۔ تمام افغان مہاجرین کو فوراً ملک بدر کیا جائے کیونکہ یہ غیر ملکی ہیں اور اب ہر حال میں سخت ایکشن لیتے ہوئے انہیں پاکستان سے بے دخل کرنا قومی سلامتی کا اولین تقاضا ہے۔ یہ کھلے دشمن ہیں اور اب رجسٹریشن جیسی کوئی رسمی کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ سب ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، لہٰذا انہیں ایک ہی نظر سے دیکھا جائے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 2023 میں شروع ہونے والی مہاجرین کی واپسی کی مہم نے ہزاروں افغانوں کو واپس بھیجا، مگر اب یہ عمل تیز تر، منظم اور بے مثال شدت سے جاری رکھنا ہوگا۔ تمام سرحدی چوکیوں پر افغانوں کی سخت ترین چیکنگ ہو، ان کے کیمپوں میں اپریشن کیا جائے ان کی مسلسل تلاشیاں لی جائیں اور کسی بھی مشتبہ عنصر کو فوری گرفتار یا ملک بدر کیا جائے۔ کوئی رعایت، کوئی ہمدردی، کوئی تاخیر،اب برداشت نہیں کی جائے گی۔

ان افغان خونخواروں کے ہمدردوں اور پناہ دہندگان کے خلاف بغیر کسی رعایت یا رحم کے قانون کا سب سے بھاری ڈنڈہ اٹھنا چاہیے، جو پاکستانی بھی ان دہشت گردوں کو چھپاتا ہے، انہیں پیسے دیتا ہے، یا ان کی حمایت کرتا ہے، وہ پاکستان کا غدار ہے اور دہشت گردی روک تھام ایکٹ کے تحت فوری مقدمات درج ہوں،کوئی سیاسی دباؤ، کوئی سفارش، کوئی معافی قبول نہ کی جائے!
ان غدار سہولت کاروں کو سزائے موت تک پہنچایا جائے اور جو بھی ان کے ہمدرد ہیں، انہیں کھلے عام پاکستان کا دشمن ڈکلیئر کیا جائے۔ یہ "افغان بھائی” کا جھوٹا نعرہ لگانے والے دراصل پاکستان کے دل میں چھپا ناسور ہیں جو ہمارے بچوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں!
انٹیلی جنس ایجنسیاں فوراً متحرک ہوں، ہر گھر، ہر دکان، ہر مسجد کی تلاشی لی جائے اور عوام کو کھل کر بتایا جائے کہ غداری کی سزا صرف موت ہے،کوئی دوسرا آپشن نہیں!

کیا ہم مزید خون بہنے دیں گے؟ کیا اسلام آباد کی کچہریوں، وانا کیڈٹ کالج اور ہمارے بچوں کے سکولوں کو مزید دہشت گردوں کی قربان گاہ بننے دیں گے؟جس کا جواب ہے ہرگز نہیں!
اب عمل کا وقت ہے،اب یا کبھی نہیں! ہم اپنے بیگناہ شہریوں، بہادر سیکیورٹی فورسز کے جوانوں اور معصوم بچوں کے مزید جنازے نہیں اٹھائیں گے۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ، بغیر کسی رعایت کےحکومت، فوج اور عوام ایک آواز بن کر اس دہشت گرد نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں،کابل کو واضح اور آخری پیغام دیں کہ اگر تم نے دہشت گردوں کو پناہ دینا جاری رکھا تو پاکستان کا جواب تباہ کن ہوگا،سرجیکل سٹرائیکس، سرحدی بندش، یا سفارتی تنہائی جو بھی ضروری ہو!.اس کے علاوہ پاکستان میں ہر افغان عنصر، ہر ہمدرد، ہر سہولت کار کو ختم کریں،کوئی چھوٹا، کوئی بڑا، کوئی رجسٹرڈ، کوئی غیر رجسٹرڈ نہیں بچنا چاہئے،یہ ایکشن اب نہیں تو پھر کب؟ ہر گھنٹہ، ہر دن کا انتظار ہمارے خون سے لکھا جائے گا۔
پاکستان زندہ باد!
پاک سرزمین کی حفاظت،ہم سب کی ذمہ داری ہے

Shares: