ہائی کورٹ ججز کی ٹرانسفرز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ ’سنیارٹی لسٹ یکساں ہو تو کوئی جھگڑا ہی نہیں ہو گا۔

سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ ججز کی ٹرانسفرز سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی پانچ رکنی آئینی بینچ جس کی سربراہی جسٹس محمد علی مظہر کر رہے ہیں، نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ ’سنیارٹی لسٹ یکساں ہو تو کوئی جھگڑا ہی نہیں ہو گا، اگر بھارت کی طرح ہائی کورٹ ججز کی مشترکہ سنیارٹی لسٹ ہو تو کیا ہوگا؟ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں تو جج کا تبادلہ رضامندی کے بغیر کیا جاتا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت ہوا اور قانون میں صوبوں سے ججز کی تقرری کا ذکر ہے، تاہم قانون تبادلے کی اجازت نہیں دیتا، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کا تبادلہ نہیں ہو سکتا؟-

سعودی سپریم کورٹ نے عوام سے ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کی اپیل کر دی

فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ تبادلہ ہو بھی جائے تو وہ مستقل نہیں ہوگا انہوں نے وضاحت کی کہ تبادلہ پر واپس جانے پر جج کو دوبارہ حلف نہیں اٹھانا ہوگا، اور اگر اٹھایا بھی جائے تو پہلا حلف ہی تسلسل مانا جائے گا، مشترکہ سنیارٹی لسٹ پر سب ججز نتائج سے آگاہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جج کا مستقل تبادلہ کرنا جوڈیشل کمیشن کے اختیارات لینے کے مترادف ہے۔

جسٹس مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 175 اے کی وجہ سے تبادلے کا آرٹیکل 200 ختم ہوگیا؟ اور کیا اب آرٹیکل 175 اے کے بعد ججز کا تبادلہ نہیں ہو سکتا؟

فیصل صدیقی نے وضاحت کی کہ بھارت میں ججز کی سنیارٹی لسٹ مشترکہ ہے اور دہائیوں میں بنتی ہے، جسے راتوں رات ٹرانسفر کر کے تبدیل نہیں کیا جا سکتا،انہوں نے راتوں رات سینارٹی لسٹ ایگزیکٹو کے ذریعے تبدیل کرنے کو ”غاصبانہ عمل“ قرار دیا۔

چین پاکستان کی سرحدوں یا خودمختاری کی پامالی کی اجازت کسی ملک کو نہیں دے گا

جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ ججز کے تبادلے کے لیے دو ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور چیف جسٹس پاکستان نے رائے دی ایک جج کے ٹرانسفر کے عمل میں چار درجات پر عدلیہ کی شمولیت ہوتی ہے اور اگر کسی ایک درجے پر بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ نہیں ہو سکتا اگر تبادلہ ہونے والا جج انکار کر دے یا متعلقہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس انکار کرے تو عمل رک جائے گا، اور حتیٰ کہ اگر پہلے تین مراحل کے بعد چیف جسٹس پاکستان انکار کر دیں تو بھی عمل رک جائے گا اگر سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، لیکن اس عمل میں چار جوڈیشل فورمز سے رائے لی گئی۔

فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے عمل میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا اور سینارٹی کے معاملے میں عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا روس پر مزید پابندیاں لگانے پر غور

بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کل اپنے دلائل دیں گے۔

Shares: