عمران خان اٹک جیل میں قید ہونے والے پہلے سابق وزیراعظم

سابق وزیراعظم نواز شریف کو 1999 میں اٹک قلعہ میں قید کیا گیا تھا
0
31
imran khan

اٹک: سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ سے توشہ خانہ کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد زمان پارک لاہور سے گرفتاری کے بعد ہفتہ کی شام ڈسٹرکٹ جیل اٹک لے جایا گیا جہاں انہوں نے پہلی رات گزاری-

باغی ٹی وی :پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائے جانے کے بعد لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے صوبہ پنجاب کے سرحدی ضلعے اٹک کی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد پہلے انھیں ہیلی کاپٹر کی مدد سے اسلام آباد منتقل کرنے کی خبریں گردش کرتی رہیں تاہم بعدازاں پی ٹی آئی چئیرمین کو سخت سیکیورٹی میں بذریعہ موٹر وے جیل لے جایا گیا۔ جیل کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سخت حفاظتی دستوں نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ اٹک پولیس کو ہدایت ملتے ہی جیل کے اطراف پولیس اور ایلیٹ فورس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔

اٹک جیل انتظامیہ نےعمران خان سے ملاقات کرانے سے انکار کر دیا،وکیل

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جیل کے ایک اہلکار نے بتایا کہ عمران خان کے لیے جیل میں ایک وی وی آئی پی سیل تیار کیا گیا تھا۔ سیل میں ایئر کنڈیشننگ کی کوئی سہولت نہیں ہے لیکن اس کے اندر ایک پنکھا، بستر اور ایک واش روم ہے۔

واضح رہے کہ اٹک پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا آخری شمالی شہر ہے جو سنہ 1904 میں انگریزوں کے دورِ حکومت میں کیمبل پور کے نام سے آباد کیا گیا تھا دریائے سندھ کے بائیں کنارے جہاں 120 سال پرانا شہر اٹک موجود ہے وہاں تھوڑے ہی فاصلے پر ‘اٹک خورد’ یعنی چھوٹا اٹک کے نام سے ایک گاؤں اس کہیں پہلے وجود رکھتا ہے۔

عمران خان پہلے سابق وزیراعظم ہیں جو اٹک جیل میں بند ہیں جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو 1999 میں اٹک قلعہ میں قید کیا گیا تھا اس سے قبل انہیں 10 سالہ جلاوطنی پر جدہ بھیج دیا گیا تھا اٹک جیل اور قلعہ الگ الگ احاطے ہیں جو ایک دوسرے سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

پاکستان میں انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے،غیر ملکی ماہرین

قلعہ اٹک خورد میں مغل بادشاہ اکبر کے دور میں 1581-83 میں خواجہ شمس الدین خوافی کی نگرانی میں دریا کے گزرنے کی حفاظت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا یہ قلعہ صوبہ خیبرپختونخوا سے متصل دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ قلعہ کا داخلی راستہ راولپنڈی-پشاور جی ٹی روڈ کی طرف سے ہے، اس تاریخی قلعے کا ایک حصہ آج بھی پاکستانی فوج کے ‘سپیشل سروسز گروپ’ یعنی کمانڈوز کے زیرِ انتظام ہے۔

دوسری جانب اٹک جیل شہر کے وسط میں راولپنڈی پشاور ریلوے ٹریک کے ساتھ واقع ہے۔ اسے برطانوی حکمرانوں نے 1905-06 میں 67 ایکڑ پر تعمیر کیا تھا برطانوی حکمران اس جیل کو زیادہ تر بغاوت میں ملوث لوگوں کو حراست میں لینے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اسے اب ملک کی ایک ہائی سیکیورٹی جیل سمجھا جاتا ہے جہاں عام طور پر سخت زیر سماعت قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔

اسی قلعے میں سابق فوجی صدر ضیاالحق کے خلاف مبینہ طور پر بغاوت کے مقدمے سمیت بینظیر بھٹو کے خلاف مبینہ سازش کرنے والوں کے خلاف مقدمات چلائے گئے،اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی اسی تاریخی قلعے میں ہوتی رہی ہے اور وہ ایک طویل عرصے تک یہیں قید رہے۔

حقِ دفاع سے قبل ہی فیصلہ سنا کر سزا دے دی گئی ہے،وکیل پی ٹی …

اٹک کی ضلعی جیل شہر کے قیام کے ایک برس بعد 1905 میں قائم کی گئی اور پنجاب کے محکمۂ جیل خانہ جات کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں 539 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس وقت وہاں اس سے کہیں زیادہ یعنی 804 افراد قید ہیں۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو 1999 میں اٹک فورٹ کی احتساب عدالت سے مشہور MI-8 ہیلی کاپٹر کک بیک کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد اٹک جیل میں رکھا گیا تھا مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز، سابق وزیراعلیٰ کے پی سردار مہتاب احمد خان، سابق وزیر مواصلات اعظم خان اور ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بھی جیل میں قید ہیں اس سال کے شروع میں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کو اسی جیل میں رکھا گیا تھا۔

چئیرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری پر امریکا کا بیان

Leave a reply