نیب ترامیم کیس ، بانی پی ٹی آئی کو مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت

اس میں عوامی مفاد کا معاملہ نہیں، لائیو اسٹریمنگ پر تھوڑی دیر تک بتاتے ہیں,چیف جسٹس
0
192
supreme

نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اپیلوں پر سماعت کی ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل 5رکنی بینچ کاحصہ تھے ،جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی لارجر بینچ میں شامل تھے، سابق چیئرمین پی ٹی آئی ویڈیو لنک کےذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی کا فیصلہ ہے،حکومتی پالیسی میں عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مدا خلت نہیں کرسکتی،جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی بات کرتا ہوں،میں میڈیا سوشل میڈیا دیکھتا اور اخبارات پڑھتا ہوں،وزیر اعظم نے کالی بھیڑیں کہا تھا،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کو کہیں کہ جوڈیشری میں کالی بھیڑیں نہیں ہیں، اگر عدلیہ میں کالی بھیڑیں ہیں تو وزیراعظم ریفرنس فائل کریں ،اٹارنی جنرل نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ الفاظ موجود ججز کےلیے استعمال نہیں کیے گئے،

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے،عدالت نے کہا کہ پھر وہی لوگ جو حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نیب ترامیم کیسے آئین سے متصادم تھیں وجوہات کیا بتائی گئیں؟قانون میں طے کردہ کرپشن کی حد سےکم کیسز دیگر عدالتی فورمز پر چلانے کا ذکر ہے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ پانچ پانچ لاکھ روپے کے مقدمات بلوچستان ہائیکورٹ میں چلتے رہے،پارلیمنٹ سزا کم رکھے یا زیادہ خود فیصلہ کرے یہ اس کا کام ہے،جسپریم کورٹ تو صرف قانون کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا نیب ترامیم سے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا ؟وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ نیب ترامیم سے جرائم کی نوعیت کو واضح کیا گیا ،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں؟کیا نیب سیکشن 9 اے پانچ میں تبدیلی کر کے نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟ نواز شریف کا کیس اثاثوں کا تھا جس میں ثبوت والی شق تبدیل کی گئی، نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا خیبرپختونخو ا حکومت اپنے صوبے میں یہ قانون لاسکتی ہے ؟ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ خیبرپختونخو ا حکومت ایسا کرسکتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خیبرپختونخو ا حکومت اپنے طور پر قانون بنا سکتی ہے ،خیبرپختونخو ا میں احتساب ایکٹ اس لیے ختم ہوا کہ وہاں نقصان ہورہا تھا،وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی وزراء پریس کانفرنسز کرکے نیب قانون کے خلاف بیانات دیتے رہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی تو آسان دلیل ہے کہ اقلیتی فیصلے کو اکثریتی فیصلہ کردیں،وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کسی قانون کی سزا کو مکمل ختم بھی کردے تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے پارلیمنٹ عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کےلیےقانون سازی کرسکتی ہے،اکثریتی فیصلے میں 100 ملین روپے کی کرپشن تک نیب کو کارروائی کاکہا گیا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے؟اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اورجرنیلوں کو نیب قانون سے استثنیٰ نہیں ملنا چاہیے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ میری رائے ایسی ہی ہے لیکن اٹارنی جنرل بہتر جواب دے سکتے ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہ کہ پرویز مشرف کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب تحقیقات کی بات کی،کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنی ٰ دیا جاسکتا ہے؟ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں؟ کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہیے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ سروس آف پاکستان کی تعریف میں ججز نہیں آتے، ججز آئینی عہدے ہیں،

مجھے یہاں قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے،میرے پاس مقدمے کی تیاری کا کوئی مواد نہیں،عمران خان
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عمران خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سماعت ملتوی کرتے ہیں، عمران خان نے کہا کہ 8فروری کو ملک میں ڈاکہ ڈالا گیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ بات اس وقت نہ کریں، ابھی نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں،عمران خان نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق 2درخواستیں آ پ کے پاس ہیں، چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ اس میں آپ کے وکیل کون ہیں؟عمران خان نے کہا کہ ان درخواستوں میں میرے وکیل حامد خان ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان سینئر وکیل ہیں، انہوں نے باہر جاناتھا توا ن کو مقدمے میں تاریخ دی ،عمران خان نے کہا کہ جیل میں ون ونڈو آپریشن ہے جس کو ایک کرنل چلاتے ہیں، آپ ان کو آرڈر کریں کہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کروانے دیں،مجھے یہاں قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے،میرے پاس مقدمے کی تیاری کا کوئی مواد نہیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو ساری چیزیں مہیا کردی جائینگی،ہم آپ کے سامنے آرڈر کردیتے ہیں، آپ کونسی لیگل ٹیم ملنا چاہتے ہیں ؟ عمران خان نے کہا کہ میں خواجہ حارث سے ملنا چاہتا ہوں،عدالت نے کہا کہ خواجہ حارث سابق چیئرمین پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کرسکتے ہیں،

قبل ازیں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی۔جسٹس اطہر من االلہ نے سماعت لائیو نشر کرنے کی حمایت کر دی اور ریمارکس دئیے کہ کیس پہلے لائیو چلتا تھا تو اب بھی لائیو چلنا چاہیے، ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کا کہنا تھا یہ کیس عوامی مفاد اور دلچسپی کا ہے جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ کیس ٹیکنیکل ہے، اس میں عوامی مفاد کا معاملہ نہیں، لائیو اسٹریمنگ پر تھوڑی دیر تک بتاتے ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہم نے متفرق درخواست دائر کی ہے، سماعت براہ راست دکھائی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ عوامی مفاد کا مقدمہ نہیں آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، بعد ازاں بینچ نے مشاورت کے بعد براہ راست نشریات کی درخواست چار ایک کے تناسب سے مسترد کردی، جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ انتظار کروانے پر معذرت خواہ ہیں، بینچ نے کوئی جلدی میں فیصلہ نہیں کیا، تمام ججز سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا۔

واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی درخواست دائر کر رکھی ہے،عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ویڈیولنک کے ذریعے پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے علاوہ ازیں خیبر پختو نخوا حکومت نے بھی سماعت لائیو دکھانے کیلئے درخواست دائر کی ہے۔بانی پی ٹی آئی عمران خان نے نیب ترامیم کو چیلنج کیا تھا، سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر کالعدم قرار دیا تھا تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔

نیب ترامیم کیس لائیو نشر کرنے کے لئے خیبرپختونخواحکومت نے درخواست دائر کر دی

نیب ترامیم کیس، عمران خان کے دلائل نہ ہو سکے، سماعت ملتوی

Leave a reply