‏اخلاقی بیماریاں اور ہم تحریر: صالح ساحل

0
59

آج میں جس موضوع کو اپنا ہدف بنا رہا ہوں اس میں کسی کی کوئ تفریق نہیں ہر شخص کو اپنا محاسبہ خود کرنا چاہیے کے وہ کہاں کھڑا ہے میں نے اپنے موضوع کے ساتھ بیماری کا لفظ استعمال کیا جو آپ کے لیے تجسس کی بات ہو گی مگر میں نے اخلاقی برائیاں کے ساتھ بیماری کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کے یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے اور ہمارے جینز میں شامل ہو چکی ہے اور یہ سرطان کی طرح ہمارے معاشرے کو اندار سے کھوکھلا کرتی جا رہی جن اخلاقی برائیاں کو خدا کے منکر برائ تسلیم کرتے ہیں ان برائیوں پر خدا کے ماننے والے کیسے رو باعمل ہیں ہر شخص مسلمان اپنی گھر سے سیکھ کر آتا ہے کے جھوٹ سب برائیوں کی جڑ ہے مگر وہ معاشرے میں کھل کر جھوٹ بولتا ناپ تول میں کمی کرنے والا ہم میں سے نہیں مگر ہر تاجر اس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے ذخیرہ اندوزی کر کے مال بنایا جاتا ہے زندگی بچانے والی ادویات میں ملاوٹ کی جاتی ہے غرض یہ کے دنیا کی کوئ ایسی برائی نہیں جو ہم میں نہ پائی جاتی ہو پھر ہم اپنے آپ کو خوش فہمی میں رکھنے کے لیے اس اخلاقیات سے دیوالیہ حرکات کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنی ذلت و رسوائی کا زمہ دار دوسروں کو قرار دیتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کے اگر ہم آج دنیا میں روندا درگاہ ہیں تو یہ دشمنوں کی سازشوں کا نتیجہ جو کے سراسر خود فریبی اور دجل ہے دنیا میں انہیں قوموں کے مقدر میں ترقی ہوتی ہے جو اخلاقی طور پر ایک قوم ہوتیں ہیں انسان نام رکھ کر حیوانات والے کام کرنے والی قومیں کبھی دنیا میں ترقی نہیں کرتی اس دنیا کی سب سے اعلی شخصیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے معترف ان کے دشمن بھی تھے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کی اخلاقی تربیت کا نتیجہ تھا کے قیصر و کسریٰ کی سلطنت آپ کے غلاموں کے قدموں تھی اور وہ عرب بدو جن کو کل تک کوئ گھاس نہیں ڈالتا تھا دنیا کے سپرپاور بن گے قوموں کے فیصلے ان کے اخلاقی وجود پر ہوتے ہیں جس قوم کا اخلاقی وجود مر چکا ہو وہ صحفہ ہستی سے مٹ جاتی ہے اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے وہ ایک چنگیز خان جو ایک چھوٹے سے قبیلے سے اٹھا اور اپنی ساتھ قبائل مل کر آدھی دنیا پر حکمرانی کرنے لگا تو تاریخ اٹھ کر پڑھو وہ ایک با اصول شخص تھا جس کے جھنڈے کے نیچے اس کے باقی قبائل جمع ہوئے مگر جب اس کی نسلوں نے ان اصولوں کو فروش کیا تو صحفہ ہستی سے مٹ گے عرب کی ایک کہاوت ہے کے ظلم پر تو معاشرہ قائم رہ سکتا ہے نا انصافی پر نہیں یہ تمام برائیاں نا انصافی کے زمرے میں آتی ہیں کسی سے جھوٹ بولنا حق تلافی کرنے ذخیرہ اندوزی کرنا کرپشن کرنا ان سب میں نا انصافی نظر آتی ہے اس لیے ہم سب کو معاشرے میں پھیلی بیماری کے ساتھ ساتھ اپنے اندار بھی دیکھنا چاہیے اور عہد کرنا چاہیے کے ہر شخص اس کے خلاف علم جہاد بلند کرے گا معاشرے کو اس ناسوار سے پاک کرنا ہماری زمہ داری ہے آئیں سب مل کر ان برائیوں کا سدباب کریں خدا کے قانون کے مطابق دنیا وہ سرفراز رہیں گے جو دنیا میں اخلاقی اصولوں پر چلیں گے
‎@painandsmile334

Leave a reply