غیرقانونی افغان، عمل، شناخت اور شفافیت
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پنجاب حکومت نے امن و امان کی بحالی کے لیے ایک جامع اور سخت پالیسی کا اعلان کیا ہے، جس کا آغاز وزیراعلی مریم نواز کے مسلسل ساتویں غیر معمولی اجلاس سے ہوا۔ اس اجلاس میں لاؤڈ سپیکر ایکٹ کا سخت ترین نفاذ یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیاصرف پانچ وقت کی اذان اور جمعہ کے خطبے کی اجازت، باقی تمام استعمال ممنوع۔ سی سی ٹی وی کیمروں، ڈرون پولیسنگ اور ایڈوانس ٹیکنالوجی سے نگرانی ہوگی تاکہ نفرت انگیزی، اشتعال اور صوتی آلودگی فوری روکی جائے۔ پنجاب میں کسی کاروبار، کسی جماعت یا کسی فرد کو کسی بھی کام کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں ہوگی،اسی اجلاس میں 65 ہزار سے زائد ائمہ کرام کے وظائف، مساجد کی تزئین و بحالی، اطراف کے راستوں کی صفائی اور نکاسی آب کے نظام کی بہتری کا بھی فیصلہ ہوا۔ فتنہ پرستوں اور انتہا پسندوں کے سوا کسی مذہبی جماعت پر پابندی نہیں ہوگی، لیکن مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کے لیے قانون کی رسی تنگ کر دی جائے گی۔ یہ اقدامات صوتی آلودگی کم کریں گے، سماجی ہم آہنگی بڑھائیں گے اور انتہا پسندی کی جڑیں کمزور کریں گی۔اور اس کے ساتھ ہی پنجاب حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی سہولت کاری یا معاونت پر کڑی سزا کا اعلان کیا ہے
لیکن یہ تمام تر خوبصورت اعلانات ایک بڑے، گہرے اور سنگین مسئلے کے سامنے بے معنی ہو جاتے ہیں اور وہ ہے غیر قانونی افغانیوں کی پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی موجودگی۔ یہ کوئی مقامی یا صوبائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی سلامتی کا بحران ہے جو پنجاب سے لے کر اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی اور خاص طور پر ڈیرہ غازیخان تک پھیل چکا ہے۔ ڈیرہ غازیخان جو چاروں صوبوں پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کا سنگم اور پاکستان کا جغرافیائی مرکز ہے، اس وقت افغانیوں کا سب سے بڑا، منظم اور محفوظ اڈہ بن چکا ہے۔ یہاں پشتونوں کی آڑ میں ہزاروں افغانی چھپے ہوئے ہیں، جن کی سرپرستی گڈز ٹرانسپورٹ کمپنیاں، مخصوص پشتون ہوٹل مالکان، ٹرانسپورٹ ایجنٹس اور مقامی سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کر رہے ہیں۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ ماضی میں یہی گروہ افغانوں کے جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنوانے کے غیر قانونی دھندے میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔ آج بھی لنڈا بازاروں، چائے خانوں، بس اڈوں، ٹرک اڈوں اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورک میں افغانیوں کی اکثریت ہے۔ وہ خود کو موسی خیل،لورالائی، کوئٹہ، وزیرستان یا پشاور کا بتاتے ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی تصدیق شدہ دستاویز نہیں ،نہ NADRA کارڈ، نہ ویزا، نہ رہائشی اجازت، نہ UNHCR کارڈ۔ وہ پاکستانی لباس پہنتے ہیں، پشتو بولتے ہیں لیکن پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ دہشت گردی، منشیات کی سمگلنگ، اسلحہ کی تجارت اور جعلی دستاویزات کی صنعت سے منسلک ہیں۔
حکومت اعلان تو کرتی ہے کہ غیر قانونی غیر ملکیوں کی سہولت کاری پر کڑی سزا ہوگی، لیکن عملی میدان مکمل طور پر خالی ہے۔ ہیلپ لائن 15 کا نام لیا جاتا ہے لیکن کوئی ٹول فری نمبر، انونیمس رپورٹنگ ایپ، ویب پورٹل یا محفوظ وسل بلوئر سسٹم اب تک متعارف نہیں کیا گیا۔دوسری طرف عوام کیوں رپورٹ کریں؟ جب وہ جانتے ہیں کہ تھانے کے SHO ماہانہ بنیاد پر افغانیوں کے "سرکردہ افراد” سے بھاری "منتھلی” وصول کرتے ہیں؟ جب پولیس خود ان کی سرپرستی کر رہی ہو، تو کون معلومات دے گا؟ اور ان کی کون سنے گا؟ڈیرہ غازیخان میں یہ کرپشن سب سے زیادہ ہے یہاں سرحدی راستوں، ٹرانسپورٹ نیٹ ورک اور ہوٹل انڈسٹری کی وجہ سے افغانیوں کو کھلی چھوٹ ملتی ہے۔پشتون ہوٹل مالکان (نہیں معلوم کہ وہ پاکستانی ہیں یاافغانی)افغانیوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں حتی کہ پولیس سے ڈیل کرا کر انہیں مکانات بھی دلوائے ہوئے ہیں ۔
2 نومبر 2025 تک اقوامِ متحدہ کے اداروں IOM اور UNHCR کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان سے افغانستان واپس جانے والے افغان مہاجرین کی کل تعداد 1,611,635 ہےلیکن ابھی بھی لاکھوں افغانی بغیر کسی قانونی دستاویز کے موجود ہیں ہیں،جنہیں کرپٹ عناصر نے تحفظ دیا ہوا ہے۔ یہ افغانی نہ صرف معاشی وسائل پر بوجھ ہیں بلکہ قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ بھی ہیں۔ ڈیرہ غازیخان میں تو صورتحال یہ ہے کہ گلیوں اور محلوں میں متعددگھر افغانیوں کے قبضے میں ہیں اور اس کے علاوہ مین بازاروں میں افغانیوں کے کاروبار ہیں بلکہ ذرائع کے مطابق کوہ سلیمان کے ارد گرد تونسہ شریف میں وہوا کے علاقوں اور شادن لنڈ کے قریب کے علاقوں میں افغانوں کی بستیاں قائم ہیں جنہیں مقامی سرداروں کی آشیرباد حاصل ہے اور مقامی پولیس بھی جانتی ہےلیکن کارروائی کیلئے انہیں دکھائی نہیں دیتے ۔
ڈیرہ غازیخان کو وفاقی اور صوبائی حکومت کا فوکل پوائنٹ بننا چاہیے۔ یہ شہر صرف ایک ضلع نہیں بلکہ پاکستان کا دل ہے۔ یہاں سے گزرنے والی قومی شاہراہ، ریلوے اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورک پورے ملک کو جوڑتے ہیں۔ اگر یہاں افغانیوں کوکنٹرول نہ کیا گیا تو پھر پورا پاکستان غیر محفوظ ہو جائے گا۔ یہاں ایک جامع، شفاف، سخت اور مثال بننے والا آپریشن چلایا جائے جو نہ صرف افغانیوں بلکہ ان کے ہمدردوں، جعلی کارڈ بنانے والوں، ٹرانسپورٹ مالکان، ہوٹل مالکان اوررشوت لیکرقومی پالیسی سے انحراف کرنے والے پولیس افسران کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں .
افغانیوں کے خلاف موثر آپریشن کے لیے فوری انونیمس رپورٹنگ ایپ متعارف کی جائے، NADRA اورFacial Recognition کو مربوط کیا جائے، پولیس کرپشن پر سخت اندرونی آڈٹ ہو اور عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے انعام، تحفظ اور شفافیت یقینی بنائی جائے،ڈیرہ غازیخان جیسے حساس مقامات پر عملی آپریشن قومی سلامتی کی ضرورت ہے ،اعلانات سے افغانی نہیں نکلتے، زمینی کارروائی سے نکلتے ہیں۔ یہاں کامیابی ہوئی تو اسلام آباد سے کراچی تک دہرائی جا سکتی ہے، ناکامی ہوئی تو پورا ملک غیر محفوظ ہو جائے گا۔ یہ اعلانات کا نہیں، عمل کا وقت ہے۔ ڈیرہ غازیخان اس جنگ کا فرنٹ لائن ہے ،یہاں جیت پورے پاکستان کی جیت ہے۔ حکومت کو اب مثال بننے والا آپریشن کرنا چاہیے جو قومی سلامتی اور عوامی اعتماد کو بحال کرے۔







