سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا.تحریر: عائشہ اسحاق

4 دن قبل
تحریر کَردَہ

سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا
تحریر: عائشہ اسحاق
سگریٹ پر ٹیکس بڑھا کر اسے غریب کی پہنچ سے دور کرنے کا مقصد لوگوں میں سگریٹ نوشی کی عادت کو ترک کروانا ہے تو یہ طریقہ نہایت نامناسب ہے کیونکہ ٹیکس میں اضافہ غریب سے سگریٹس تو واقعی دور کر سکتا ہے مگر یہ طریقہ غریب کو سمگلنگ شدہ ناقص گھٹیا درجے کا سستا سگریٹ پینے پر مجبور کر دیتا ہے ۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں سگریٹ نوشی کے خلاف مختلف پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں سگریٹ پر ٹیکس کی شرح بڑھانے سے غریب کا فائدہ نہیں بلکہ مزید نقصان ہوتا ہے۔ 2024 کے اختتام پر پیش کی جانے والی مالی رپورٹ کو دیکھیں تو 63 فیصد تک غیر قانونی سگریٹ کا کاروبار عروج پر رہا۔ ماہر ٹیکس امور کے مطابق 2021 میں قانونی طور پر سگریٹ کا کاروبار 80 فیصد اور غیر قانونی سیگرٹس کا کاروبار 20 فیصد تھا جو کہ 2024 میں سگریٹ پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہونے کی باعث سمگلنگ شدہ غیر قانونی سگریٹ 63 فیصد تک جا پہنچا۔

سگریٹ نوشی ایک ایسی لت ہے جو امیروں اور غریبوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے مگر ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے جب سیگرٹ کے پیکٹ کہ قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو امیر ادمی کے لیے اسے خریدنا کچھ مشکل نہیں ہوتا مگر اس کے برعکس غریب سیگرٹ نوشی کے عادی افراد قانونی طور پر رجسٹرڈ کمپنیوں اور برانڈز کے سگریٹ کو خریدنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے افراد سمگلنگ شدہ اور لوکل کمپنیوں کی طرف سے تیار کیے جانے والے سگریٹ سستے داموں خرید لیتے ہیں۔ ان سیگرٹس میں کوئی نہیں جانتا کہ اجزا کس طرح کے استعمال کیے جاتے ہیں تمباکو کون سا استعمال کیا جاتا ہے لہذا یہ رجسٹرڈ برانڈز کے سگریٹ کی نسبت کہیں زیادہ مضر صحت ثابت ہوتے ہیں۔

اول تو ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں سیگرٹ کی خرید و فروخت پر مکمل طور پر پابندی عائد ہونی چاہیے کیونکہ سگریٹ نوشی ایک ہلکا نشہ ہے اور یہ عمل اہستہ اہستہ انسان کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں ہمارے مذہب دین اسلام میں کسی قسم کا بھی نشہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ یہ ایک مکروہ عمل ہے اور پھر یہ حقیقت واضح ہے کہ سگرٹ امراض کلب پھیپھڑوں کے امراض کینسر اور سرطان جیسی مہلک بیماریوں کے علاوہ دیگر کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ لہذا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان میں سگریٹ بنانے، خریدنے اور بیچنے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔

لیکن اگر حکومت پاکستان ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کرتی اور ٹیکس بڑھا کر سیکرٹ کے استعمال میں کمی واقعہ کرنے کی خواہاں ہے تو میری ذاتی طور پر رائے ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس کی شرح میں کمی واقع کر دی جانی چاہیے تاکہ سمگلنگ جیسے گنھوونے دھندے کو مات ہو سکے۔
کسٹمز انٹیلیجنس نے رواں سال مختلف کاروائیوں میں نان کسٹم پیڈ سیگرٹ کے تقریبا چار لاکھ سے زائد پیکٹ پکڑے۔ غیر قانونی سگریٹس کی خرید و فروخت سے 300 ارب سے زائد ٹیکس چوری ہوا۔ لہذا یہ کہنا غلط نہیں کہ غیر قانونی سمگلنگ شدہ سگریٹ انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ملکی مالی نقصان کا بھی باعث بنتے ہیں۔

ارٹیکل 6 کے تحت سیگرٹس بنانے والی تمام کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز کی بھی رجسٹریشن کرنی چاہیے پاکستان میں دکانداروں کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی جس کی وجہ سے یہ بات معلوم نہیں ہو پاتی کہ کون پیڈ سگرٹ فروخت کر رہا ہے اور کون نان پیڈ فروخت کرتا ہے۔ ڈسٹری بیوٹرز کا رجسٹرڈ نہ ہونا لوکل کمپنیوں اور سمگلرز کی چاندی چمکانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ یہ عمل لوگوں کی خاص کر نوجوانوں کی صحت اور ان کی زندگیاں برباد کر رہا ہے۔ اس معاملے میں مختصرا یہی کہا جا سکتا ہے کہ محض ٹیکس بڑھا کر سگریٹ کو غریبوں کی پہنچ سے دور کرنا کوئی مثبت حکمت عملی نہیں یا تو پاکستان میں سگریٹ کی خرید و فروخت پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جائے یا پھر لوکل کمپنیوں اور غیر قانونی سگریٹ کی خرید و فروخت پر روک تھام کے لیے سیگرٹس کے تمام مینوفیکچرز اور ڈسٹری بیوٹرز حتی کہ تمام دکانداروں کی بھی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔

Latest from بلاگ