ہم سب علم کی اہمیت سے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں اور بہت جوش و جذبے کے ساتھ علم حاصل کرتے بھی ہیں۔ علم حاصل کرنا ضروری ہے مگر اس سے بھی زیادہ ضروری اس پر عمل پیرا ہونا ہے کیونکہ علم بغیر عمل کے جہالت ہے۔ بد قسمتی سے اکثر ایسا دیکھنے میں ملتا ہے کہ علم تو زور و شور سے حاصل ہو رہا ہے مگر عمل اس کے مترادف ہے۔ یہاں یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ آخر اتنا علم حاصل کرنے کے بعد عمل اس کے مطابق کیوں نہیں کیا جا رہا؟ دراصل ہر بات ہر غلطی ہر برائی سیاست دانوں، اداروں اور حکومت کے پلے میں ڈال دینا اور اپنے ہاتھ جھاڑ لینا عوام کا معمول بن چکا ہے۔ عوام کبھی یہ بات سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ جو مسئلے مسائل کرپٹ سیاست دانوں اور افسران کی وجہ سے پاکستان پر مسلط ہیں ان کو تقویت دینے میں عوام کا اپنا بھی ہاتھ شامل ہے۔ یاد رہے معاشرہ سیاستدان یا کوئی ادارہ نہیں بناتا ،معاشرہ اس تربیت سے تشکیل پاتا ہے جو ایک نسل دوسری نسل کی کرتی ہے۔ اعمال علم کے مطابق اس لیے نہیں ہو پا رہے ہیں کیونکہ علم اور عمل کے درمیان سب سے اہم چیز تربیت اور نیت آتے ہیں۔ علم حاصل کرنے کے بعد انسان کی نیت سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے نیت کی اہمیت اس حدیث مبارکہ سے لگائی جا سکتی ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے” ہم اس حدیث مبارک سے سمجھ سکتے ہیں کہ اعمال کا تعلق انسان کی نیت پر ہوتا ہے اور نیت بنانے میں تربیت سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے ۔اسی سلسلے میں فرمایا گیا ہے کہ ماں کی گود پہلی درسگاہ ہے۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس حوالے سے ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل ہر کوئی صرف دولت کمانے کے پیچھے بھاگتا چلا جا رہا ہے ۔ دولت کمانے کی دھن وہ اندھا کنواں بن چکی ہے جس میں لوگ گرتے چلے جا رہے ہیں اور لالچ کے اس دوڑ میں امیر غریب برابر کے شریک ہیں۔ عدالتوں کے باہر قرانی آیات لکھی گئی ہے مگر انہی عدالتوں میں رشوت خوری کرتے ہوئے مظلوم کو مجرم بنانا اور مجرم کو مظلوم ثابت کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے، دکانوں پر خیر الرازقین اور دیگر آیات و احادیث درج کروا کر دکاندار حضرات ملاوٹ شدہ اشیاء مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں یہ سب علم کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ نیت کی کھوٹ اور تربیت میں کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ ان حضرات کی نیت حلال حرام کی تمیز کیے بغیر پیسہ کمانے کی ہوتی ہے۔ گھروں پر مختلف آیات اور دیگر کلمات لکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب لوگ دین اور دنیا کا علم بخوبی رکھتے ہیں مگر دولت کا لالچ اور ہوس اس حد تک گمراہ کیے ہوئے ہے کہ وہ کسی کا حق مار کر جائیدادیں بنانا کامیابی تصور کرتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ پھل سبزیاں فروخت کرنے والا غریب طبقہ بھی کچھ کم نہیں ناپ تول میں کمی کرنا سستی چیز مہنگی کر کر بیچنا ان کا معمول ہے۔ مختصر یہ کہ امیر سے لے کر غریب تک دولت کمانے کی دھن میں بے ایمانی کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔

جھوٹ دھوکہ دہی ناانصافی بے ایمانی کر کے کمائی گئی دولت پر فخر کیا جاتا ہے۔ اور یہی چیز اگلی نسل کو بھی سکھائی جاتی ہے۔ یاد رکھیں بچے ہمیشہ اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں جب بڑے اس طرح کی حرکتیں کر کے فخر محسوس کرتے ہیں تو بچوں کے اندر یہ سب خباثتیں خود بخود پروان چڑھنے لگتی ہیں۔ یہ وہ تربیتی عمل ہے جو ہمارے گھروں سے نکل کر ایک معاشرے کو تشکیل دیتا ہے۔ اس طرح لالچ اور ہوس پر منحصر سوچ رکھنے والی قوم کس طرح کرپٹ سیاستدانوں اور غدار افسران کا گریبان پکڑ سکتی ہے جب کہ وہ خود اپنے حصے کی بے ایمانی کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ حرام طریقے اپنا کر کوئی خیر کیسے حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ اللہ ایسے لوگوں کے دلوں سے جرات اور ہیبت ختم کر دیتا ہے ایسے لوگوں پر ظالم حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں ۔ پھر ایسی قوم کا مستقبل پسپائی اور ذلت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔

لہذا اپنے بچوں کی تربیت پر خاص طور پر توجہ دیں اور صحیح غلط حلال حرام اور جائز ناجائز چیزوں کا فرق کرنے کی تمیز خود عملی طور پر اپنائیں۔ ظلم نا انصافی کے خلاف حق اور سچ کے راستے پر ڈٹ کر کھڑے ہوں۔ بچے خود بخود سیکھنا شروع کر دیں گے۔ یہ وہ اصل میراث ہے جو ایک نسل اگلی نسل کو سونپتی ہے اور جس سے مہذب قومیں اور معاشرے بنتے ہیں۔ اس کے بغیر حاصل کیا گیا علم اور ڈگریاں محض کاغذ کے ٹکڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

Shares: