افغانستان دنیا کے ان 8 ممالک میں شامل ہے جو اپنی معیشت کا بڑا حصہ امریکی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ سینٹر فار گلوبل ڈیولپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغانستان کی 35 فیصد غیر ملکی امداد امریکہ کے ادارے یو ایس ایڈ (USAID) کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں امریکی امداد کی معطلی نے افغانستان کی معیشت کو سنگین بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، امریکی امداد کی معطلی سے افغانستان کی اقتصادی ترقی میں 7 فیصد تک کمی متوقع ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں امریکہ نے افغانستان کو 3 ارب ڈالر سے زائد مالی امداد فراہم کی، اور وہ افغانستان کا سب سے بڑا مالی معاونت فراہم کرنے والا ملک تھا۔2021 میں افغان زر مبادلہ کے ذخائر 9.4 بلین ڈالر تھے، جنہیں طالبان کے قبضے کے بعد عالمی اداروں نے منجمد کر دیا۔ اس کے نتیجے میں افغان کرنسی کی قدر میں نمایاں کمی آئی۔ گزشتہ ہفتے میں افغان کرنسی کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہو گئی، جو کہ مزید معاشی مشکلات کا سبب بنے گی۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، اور گزشتہ دو ماہ کے دوران ایک امریکی ڈالر کی قیمت 64 افغان کرنسی سے بڑھ کر 71 افغان کرنسی تک پہنچ چکی ہے۔ جنوری 2025 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس کے تحت امریکہ نے افغانستان کو فراہم کی جانے والی تمام غیر ملکی امداد فوری طور پر روک دی۔افغان عوام نے ملک میں بڑھتے اقتصادی چیلنجز اور بیروزگاری پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان میں گزشتہ سال بے روزگاری کی شرح 14.39 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جس سے معاشی حالت مزید بگڑ گئی ہے۔
افغان وزارت اقتصادیات کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کی معطلی سے افغانستان کے عوام کی زندگی پر فوری منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ وزارت نے یہ بھی کہا کہ امداد کی کمی سے افغانستان کی معیشت بدتر ہو چکی ہے، اور افغان حکومت کو دہشت گردی کی بجائے عوامی فلاح و بہبود اور اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں اقتصادی اور معاشی ترقی کے بجائے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت کی، جس کے باعث افغان عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے اور عوام کی فلاح کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ ملک میں امن اور خوشحالی کا آغاز ہو سکے۔