وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اقتصادی سروے کے حوالے سے بریفنگ میں کہا ہے کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی پلان بی نہیں تھا،

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں آئی ایم ایف سے معاہدہ سب سے اہم معاشی کامیابی ہے،دو طرفہ عالمی اور کثیر الجہتی شراکت داری سے بھی مثبت شرح نمو ممکن ہوا،پاکستان میں رواں مالی سال ترقی کی شرح 2.38 فیصد رہی،عالمی سطح پر توانائی اور کھانے پینے کی اشیا ءکی قیمتوں میں اضافہ ہوا،
حکومتی اصلاحاتی پالیسی سے بتدریج اقتصادی بحالی ہو رہی ہے، زرعی شعبے میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے بھی اقتصادی شرح نمو میں اضافہ ہوا،زراعت کے شعبے میں گزشتہ 19 سال کے دوران سب سے زیادہ ترقی ہوئی،
مالی سال 2024 کے دوران مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ہو رہی ہے،رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 94.8 فیصد کمی ہوئی،رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران ترسیلات زر میں 3.5 فیصد اضافہ ہوا،رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران بیرونی سرمایہ کاری میں 8.1 فیصد اضافہ ہوا،معاشی اصلاحات کے نتیجے میں روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ بھی رک گیا،جون 2023 کے بعد روپے کی قدر میں 2.8 فیصد کا اضافہ ہوا،زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 14 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں،جولائی تا اپریل تجارتی خسارے میں 21.6 فیصد کمی ہوئی،سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی درست سمت کی طرف پیش قدمی ہے،حکومت مہنگائی کی شرح مزید کم کرنے کیلئے انتظامی،ریلیف اور پالیسی سطح پر اقدامات کر رہی ہے،

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ جب میں پرائیویٹ سیکٹر میں تھا تب میں کہتا تھا کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے ،اگر ہم آئی ایم ایف کے پا س نہ جاتے تو صوتحال مختلف ہوتی ، میں شروع سے ہی کہتا آیا ہوں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ضروری ہے، آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،جی ڈی پی گروتھ میں بڑی صنعتوں کی گرؤتھ اچھی نہ رہی، مالی سال 2022-23 میں روپے کی قدر میں 29 فیصد کمی ہوئی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 50 کروڑ ڈالر تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے ،رواں مالی سال ریونیو کلیکشن میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے ، مہنگائی کی شرح کم ہونے کی وجہ سے کل شرح سود کی کمی ہوئی ،ہمارے پاس 9 ارب ڈالرز کے ذخائر ہیں ،گزشتہ چند ماہ میں معاشی استحکام نظر آرہا ہے ،زراعت اور آئی ٹی کا آئی ایم ایف سے تعلق نہیں ، سب کچھ ہمارے کنٹرول میں ہے ،اسلام آباد ائیرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کا مراحلہ بھی آگے بڑھا ہے، اسلام آباد ائیرپورٹ کے بعد لاہور اور کراچی ائیرپورٹس کی طرف بڑھیں گے ،پی آئی اے کی نجکاری کیلئے 6 پارٹیز پری کولیفائی ہوچکی ہیں،

اقتصادی سروے کے اہم نکات کے مطابق حکومت کو اقتصادی،صنعتی ترقی، مہنگائی میں کمی اور بجلی کی پیداواری صلاحیت سمیت اہم معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا رہا،شرح سود 22 فیصد تک بڑھانے کے باوجود مہنگائی کم کرنےکا ہدف حاصل نہ ہوسکا۔

مالی سال 2024 میں صحت کے شعبے پر جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد خرچ
اقتصادی سروے 23-24،مالی سال 2024 میں صحت کے شعبے پر جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد خرچ کیا گیا
دوران زچگی بچوں کی اموات کی شرح میں کمی آئی،ملک بھر میں رجسٹرد ڈاکٹروں کی تعداد 2لاکھ 99 ہزار،113 تک پہنچ گئی۔رجسٹرد دانتوں کے ڈاکٹرز 36 ہراز32،نرسز کی تعداد1 لاکھ 27 ہزار 855 ہو گئی،دائیاں 46 ہزار 110، لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد 24 ہزار 22 ہو گئی۔2023 میں خوراک کی فراہمی کی شرح میں بہتری آئی،گذشتہ سال کے مقابلے میں شرح ساڑھے چار فیصد بہتر رہی۔

بجٹ میں وفاق اور صوبوں کے ترقیاتی بجٹ میں 1000 ارب روپے کے اضافے کا فیصلہ
دوسری جانب نئے مالی سال کے بجٹ میں وفاق اور صوبوں کے ترقیاتی بجٹ میں 1000 ارب روپے کے اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جاری اعلامیے کے مطابق آئندہ مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا گیا ہے، زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 2 فیصد مقرر کیا گیا ہے جبکہ صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 4.4 فیصد اور بڑی صنعتوں کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد رکھا گیا ہے، خدمات کے شعبے کی ترقی کا ہدف 4.1 فیصد اور جی ڈی پی میں مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.2 فیصد مقرر کیا گیا ہے، آئندہ مالی سال افراط زر کا اوسط ہدف 12 فیصد مقرر کیا گیا ہے،نئے مالی سال کے لیے وفاق اور صوبے ملکر ترقیاتی منصوبوں پر 3792 ارب روپے خرچ کریں گے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں 1012 ارب روپے زیادہ ہے، وفاقی پی ایس ڈی پی 550 ارب اضافے کے ساتھ 1500 ارب روپے جب کہ چاروں صوبوں کا سالانہ ترقیاتی پلان 462 ارب روپے اضافے سے2095 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے،صوبہ سندھ ترقیاتی منصوبوں پر سب سے زیادہ 764 ارب روپے خرچ کرے گا، پنجاب نے 700 ارب روپے، خیبرپختونخوا نے 351 ارب جب کہ بلوچستان نے 281 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سیلز ٹیکس میں اضافہ متوقع ہے جس کے پیش نظر چینی، گھی، چائے کی پتی اور میک اپ کا سامان مہنگا ہونے کا امکان ہے،، چینی پر سیلز ٹیکس 18 سے بڑھ کر19 فیصد ہونے سے چینی کے فی کلو نرخ میں 5 روپے تک اضافہ ہو سکتا ہے گھی 5 سے 7 روپے، صابن 2 سے 5 روپے اور شیمپو 15 سے 20 روپے مہنگا ہونے کا امکان ہے۔

Shares: