مزید دیکھیں

مقبول

ڈیکلریشن سپریم کورٹ کو بھیجی جائے گی، اگر منظور ہوگئی تو پارٹی تحلیل ہوجائے گی. وزیر داخلہ

وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کا اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ڈیکلریشن سپریم کورٹ کو بھیجی جائے گی اور اگر وہ منظور ہوگئی تو پارٹی تحلیل ہوجائے گی۔

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ فواد چودھری کہہ رہے کہ فارن فنڈنگ کا کوئی زکر نہین لیکن دراصل یہ جھوٹے لوگ ہیں حالانکہ انکی جماعت نے 371 غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز لئے ہیں جس کے تمام ثبوت موجود ہیں.

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان سے خیرات اور مریضوں کے نام پر لیا گیا پیسہ بجائے فلاحی کام پر لگانے کے اپنی سیاست کیلئے استعمال کیا جو سب سے بڑی بددیانتی ہے.

ان کا کہنا تھا کہ: عمران خان نے پاکستان دشمن ممالک سے بھی فنڈز لیے ہیں جو افسوس ناک ہے کیونکہ ایسی فنڈنگ ممنوعہ ہے.

انہوں نے کہا کہ یہ حکومت اور عدلیہ کا امتحان ہے لہذا اس شخص کیخلاف کاروائی ہونی چاہئے اور اس شخص کو اب نااہل ہونا چاہئے.

وفاقی وزیر اعظم نزید تارڑ نے کہا کہ وہ آدمی جو ساری زندگی دوسروں کو چور ڈاکو اور ایجنٹ کہتا رہا آج ان کے خود کے خلاف ثابت ہوگیا کہ انہوں نے فارن فنڈنگ کے ذریعے غیر قانونی کام کرتے ہوئے پیسہ لیا.

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ایک آئینی ادارے نے عمران خان کو ایک جھوٹا شخص قرار دے دیا ہے اور یہ شخص سرٹیفائیڈ جھوٹا ہے.

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے پاس جب یہ معاملہ آئے گا تو قانون اپنا راستہ لے گا اور اگر انہوں نے کوئی جواز بنایا بھی تو پاکستان کا قانون ایسا کرنے نہیں دے گا.

وفاقی وزرا نے کہا اب عمران خان کا سیاست مین رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے کیونکہ اب انکے خلاف فیصلہ صادر ہوگیا ہے کہ ان کی منی ٹریل تو اب قانو کے خلاف ہے.

وفاقی وزرا نے آٹھ سال کے طویل عرصے بعد فیصلہ دینے پر الیکشن کمیشن کو خراج تحسین پیش کیا.

رانا ثناء اللہ نے برسٹر علی ظفر کو مخاطب کرکے کہا کہ برسٹر علی ظفر پر حیرانی ہے کہ وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہو کر عجیب باتیں کررہے ہیں.

برسٹر علی ظفر پر حیرانی ہے کہ وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہو کر عجیب باتیں کررہے ہیں.

واضح رہے کہ فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ مخالف سیاسی جماعتوں کا پی ٹی آئی پر فارن فنڈنگ لینے کا الزام آج کے فیصلے سے دفن ہوگیا، فارن فنڈنگ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی بیرونی ادارہ یا حکومت سیاسی پارٹی بنائے اور اس کو فنڈنگ کرے، اس طرح کی فنڈنگ حاصل کرنے پر پارٹی کالعدم قرار دی جاسکتی ہے لیکن یہ مؤقف تو ختم ہوگیا۔

علی ظفر نے مزید کہا کہ جو بھی پارٹی یا کمپنی جو فنڈز اکھٹے کرتی ہے تو فنڈز میں سے کچھ فنڈنگ ایسی ہوسکتی ہے جو کہ ممنوع ہے تو وہ فنڈنگ ضبط کرلی جاتی ہے اور یہ ایک اکاؤنٹنگ سے متعلقہ معمول کا معاملہ ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے علی ظفر نے مزید کہا کہ جیسے اگر فنڈز جمع کرنے کے لیے کوئی کرکٹ میچ کرایا جاتا ہے، کچھ اس میں سے جمع کرکے ایک پارٹی کو دے دیے جاتے ہیں تو پارٹی کو پتا نہیں چلتا کہ کس نے فنڈز دیے ہیں، یہ تو صرف فنڈز جمع کرنے والا جانتا ہے، تو اسی طرح کی کچھ ٹرانزیکشنز کو الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ کیونکہ وہ فنڈز غیر ملکیوں نے دیے ہیں اس لیے وہ ضبط کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر کچھ بلا واسطہ اکاؤنٹس کو بھی الیکشن کمیشن نے غلط طریقے سے ضبط کرلیا ہے تو اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ اس فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے معروف قانون دان عرفان قادر نے کہا کہ فیصلے کے سنگین نتائج ہوسکے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر قوانین میں ترمیم کرنی چاہیے، کیونکہ کچھ قوانین میں ترمیم کیے بغیر ملک میں مستحکم حکومت نہیں بن سکتی۔

عرفان قادر نے کہا کہ عمران خان کے پاس اچھا موقع تھا کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر اس طرح کے قوانین میں ترمیم کرتے لیکن عمران خان سمجھتے تھے کہ وہ تن تنہا حکومت بناسکتے ہیں۔

پارلیمانی اور قانونی امور کے ماہر و پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ: پہلی بات یہ کہ فیصلے سے تصدیق ہو گئی کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ رقم قبول کی، دوسری بات یہ ہے کہ فارن فنڈنگ بھی اس ممنوعہ رقم میں شامل تھی اور تیسری بات یہ ہے کہ پارٹی کے چئیرمین عمران خان کا اکاؤنٹس کی تفصیلات کے حوالے سے بیان حلفی جھوٹا ہے، اس سب سے اگلے اقدامات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔