عمران خان بطور وزیراعظم اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے تیار تھے،دعویٰ آ گیا

imran

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان بطور وزیراعظم اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لئے تیار تھے

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے صحافی و اینکر احمد قریشی نے دعویٰ کیا کہ بطور وزیراعظم عمران خان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کے لئے تیار تھے، اور اس ضمن میں عمران خان نے ذارت اور خاندانی رابطوں کو بھی استعمال کیا، احمد قریشی کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت کی حالت جب غیر مستحکم ہوئی تو پھر وہ پیچھے ہٹے، اس حوالہ سے چند نئی معلومات بھی سامنے آئیں گی

احمد قریشی کے اس دعوے کو پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے بے بنیاد قرار دیا تا ہم احمد قریشی اپنے اس دعوے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ عمران خان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے

دوسری جانب تحریک انصاف کی رہنما، سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے ردعمل میں کہا کہ احمد قریشی عمران خان پر بے بنیاد الزام لگا رہے ہیں، میں اس بات کو دہراؤں گی کہ یہ غلط کہہ رہے ، ہمیں بہت سے ایسے مسائل پر بولنے کے لیے مجبور نہ کریں جہاں ہم ابھی تک خاموش ہیں

ایک اور ٹویٹ میں شریں مزاری کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کس کیلئے کام کرتاہے ، تو سوال یہ ہے کہ اسے عمران خان کی خارجہ پالیسی کو نشانہ بنانے کیلئے کون فیڈنگ کروا رہاہے ، اس دوران عمران خان نے تنقید کی کیونکہ احمد قریشی جیسے بوائز چاہتے تھے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے ، عمران خان نے پوری طرح اسرائیل کو عوامی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا عمران خان نے اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی کی مسلسل عوامی سطح پر مذمت کی ، احمد قریشی کو چاہیے کہ وہ حقائق کا مطالعہ کریں ہم بہت سے حساس معاملات پر خاموش ہیں لیکن ہمیں کونے میں نہ دھکیلا جائے ہم ایک سال سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ شخص عمران خان اور اس کی آزاد خارجہ پالیسی کو سنگین الزامات لگا کر نشانہ بنا رہا ہے جواب اس لیے نہیں دیا کیونکہ اس کے پاس کوئی خاصیت نہیں ہے

قبل ازیں سابق وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نےاسرائیل کا دورہ کرنے پر معروف صحافی احمد قریشی کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا شیریں مزاری کو جواب دیتے ہوئے احمد قریشی نے کہا آج کی خودساختہ پی ٹی آئی اسرائیلی مخالف 2005 میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجیک اسٹڈیز کی ڈائریکٹر جنرل تھیں جب ان کے باس اس وقت کی پرویز مشرف حکومت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ترکی میں پہلی پاکستان اسرائیل میٹنگ کی تھی جس کے بعد اسرائیل نے درآمدی لائسنس ختم کردیا تھا اس وقت اعتراض نہ کرکے انہوں نے اپنی نوکری بچائی پاکستانی وزیر خارجہ کی اسرائیلی وزیر خارجہ کی باضابطہ ملاقات پر اعتراض نہیں کیا وہ اس عہدے پر2008 تک رہی .احمد قریشی نے اپنے ٹویٹ میں قصوری کی اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کی تصاویر بھی شیئر کی .

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات و دیگر کئی ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں، ترکی کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم ہیں،سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ پس پردہ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے،سعودی عرب نے اسرائیل کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، عمران خان کے دور حکومت میں خبریں آئی تھیں کہ زلفی بخاری نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے تا ہم بعد میں انہوں نے تردید کی ،

موجودہ وزیر خارجہ بلاول زرداری نے بھی زلفی بخاری کی اسرائیل کے دورے کی خبروں پر وضاحت مانگی تھی ،بلاول زرداری کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان زلفی بخاری اور اسرائیل حکام کے درمیان کی ملاقات کے حقائق عوام کے سامنے لائے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ زلفی بخاری کے دورہ اسرائیل کے حوالہ سے حقائق لے کر آئے اگر وہ نہیں گیا تو جو جہاز جو اسرائیل پہنچا تھا جو جہاز کی ڈیٹیل ہے وہ قوم کے سامنے لائے، سب پتہ چل جائے گا، دوسرا بتایا جائے کہ اگر جہاز کا یہی روٹ تھا تو کس نے اجازت دی، زلفی بخاری کو جہاز نے نہیں اٹھایا تو کس نے اٹھایا یہ خبر اسرائیل کے اخبار نے اسرائیل کے سنسر بورڈ سے اجازت لے کر شائع کی، پی پی مطالبہ کرتی ہے کہ اس جہاز کی تفصیل سامنے لائی جائے، سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث چل رہی ہے

یو اے ای اسرائیل معاہدہ،ترکی کے بعد پاکستان کا رد عمل بھی آ گیا

فیصلہ ہو چکا،جنرل باجوہ محمد بن سلمان سے کیا بات کریں گے؟ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کے اہم انکشافات

پاکستان اسرائیل کو اگر تسلیم کر بھی لے تو….جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے بڑا دعویٰ کر دیا

اسرائیل، عرب امارات ڈیل ،غلط کیا ہوا، مبشر لقمان نے حقائق سے پردہ اٹھا دیا

خطے میں قیام امن کیلئے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ڈیل ہو گئی

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین معاہدے پر ترکی بھی میدان میں آ گیا

حالات گرم،فیصلہ کا وقت آ گیا،سعودی عرب اسرائیل کے ہاتھ کیسے مضبوط کر رہا ہے؟ اہم انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

 

Comments are closed.