ملکی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو امریکہ مخالف بیانیہ آزمایا ہوا فارمولا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور مذہبی جماعتیں اسی فارمولے پرعوام سے ووٹ حاصل کرتی رہیں ۔ جب بھی کسی حکومت کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی تو وہ سیاسی جماعت امریکہ اور اسٹیبلشمنت کو نشانے پرلیتی ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی وہی فارمولا اپنایا ۔ ملکی سیاست اور جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں کا المیہ رہا ہے جب انکے مفادات کی بات آتی ہے تووطن عزیز کے سیاسی ومذہبی اداکار اخلاقی اورجمہوری اقدار کو پامال کرتے ہیں۔ اس طرز سیاست نے سیاسی جماعتوں کو بھی سیاسی طور پر نقصان پہنچایا ۔ اس کی مثال پیپلزپارٹی کی دی جا سکتی ہے بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی سندھ کی حد تک محدود ہو کررہ گئی ہے ۔ پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کے نقش قدم پر چل کر ملک کی مقبول ترین جماعت مسلم لیگ(ن) جس کی آبیاری نواز شریف نے کی تھی بالخصوص پنجاب میں اس جماعت کو شکست دینا ناممکن تھا ۔ شہبازشریف اور اُن کے قریبی چند ساتھیوں کی طرز سیاست کی وجہ سے اس جماعت کو پنجاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ شہباز شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں کو عارضی فائدے تو مل گئے لیکن ان کی جماعت کو شدید دھچکا لگا ۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے آمدہ قومی انتخابات میں پنجاب کو فتح کرنے کے لئے نئی حکمت عملی تیار کرلی اور اس نئی حکمت عملی کے کرداروں میں مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہی ہیں بلاشبہ چوہدری خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر پنجاب کی وزارت اعلی چوہدری پرویز الہی کے پاس ہے جو مسلم لیگ (ن) کے لئے سیاسی طور پر اچھا شگون قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ پنجاب کو فتح کرنے کے لیے اور آمدہ قومی انتخابات میں کامیابی کے لئے شہباز شریف اوران کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں کوئی بھی ایسی کرشماتی شخصیت نہیں جو عمران خان کے بیانیے پر حاوی ہو سکے ۔ اگر نواز شریف وطن آتے ہیں تو شاید کوئی اس جماعت کو کامیابی حاصل ہو، مریم نواز نے اس جماعت کی مقبولیت کو بچانے کی بہت کوشش کی اور کررہی ہے تاہم نواز شریف آج بھی پنجاب میں مقبول ہیں۔ نواز شریف کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
حکومت پی ڈی ایم کی ہے لیکن معاشی بحران مہنگائی کا ملبہ نواز لیگ پر پڑ رہا ہے اس بحران کو حل کرنے کے لیے نواز شریف کے پاس سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار موجود تھے مگر شہباز شریف ان کی پاکستان آمد کا راستہ ہموار کرنے میں ناکام رہے ۔ رہی بات عوام کی جس ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو وہاں عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔