کل ہونے والے ضمنی انتخابات میں سابق وزیراعظم اور چیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اب بھی عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ گزشتہ جلسوں میں عمران خان نے عوام میں جو بیانیہ بنایا تھا۔ کل کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے اس بیانیے کی جیت کو نہ صرف ثابت کیا۔ بلکہ اس بیانیے کو پہلے سے زیادہ مضبوط کیا ہے۔
17 جولائی کے پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں جیت کی بعد تحریک انصاف ، پنجاب میں حکومت واپس لینے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
جبکہ اس ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف کی سیاسی تحریک اور عام انتخابات کے قبل از وقت انعقاد کے مطالبے کو تقویت ملے گی۔ انتحابات کے نتائج سے یہ لگ رہا ہے کہ عمران خان اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول ترین رہنما ہیں۔ جبکہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعت بن کر سامنے آسکتی ہے۔ مگر ہر الیکشن کا اپنے ڈائینامکس ہوتے ہیں۔ اسی لیے قبل از وقت کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
کل کے فواد چوہدری کے بیان سے تو یہی لگتا ہے کہ تحریک انصاف اب پہلے سے زیادہ قبل از انتخابات کےلئے حکومت پر دباؤ ڈالے گی۔
اس جیت سے بظاہر تو تحریک انصاف کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تاہم عمران خان کا بیانیہ اس جیت کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔
یہ تو بات تھی اس بیانیے کی جس میں عمران خان کی جیت ہوئی ہے۔ گزشتہ جلسوں میں عمران خان نے ایک اور بیانیہ بھی عوام میں بیچا۔
اور وہ بکا بھی۔۔ وہ بیانیہ تھا کہ "الیکشن کمیشن جانبدار ہے”۔ اگر الیکشن کمیشن جانبدار ہوتا تو کیا عمران خان چھ نشستوں پر جیت پاتے؟۔ بالکل بھی نہیں ۔ عمران خان کی جیت نے عمران خان کے اس بیانیے کا ہرا دیا۔الیکشن نتائج سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا غیر جانبدار ہونا بھی ثابت ہوگیا ہے ۔ عام انتخابات میں عمران خان، کم از کم یہ بیانیہ تو نہیں اپنا سکتے کہ الیکشن کمیشن جانبدار ہے۔
لیکن کیا پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت قبل از وقت انتخابات کروائے گی؟۔ بالکل بھی نہیں۔ ضمنی انتخابات نے عمران خان کو مقبول ترین لیڈر ثابت کر دیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت جب تک عمران خان کے بیانیے کو کمزور نہیں کر دے گی۔ تب تک وہ عام انتخابات نہیں ہونے دے گی۔