سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات کی بنیاد پر عمران خان کسی بھی صورت میں ڈیل کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ملک کی سیاسی صورتحال میں کئی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔فواد چودھری نے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسمبلی کی تحلیل کے منصوبے کی تفصیلات بھی شیئر کیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اس منصوبے سے صرف چار افراد آگاہ تھے، جن میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان، صدر عارف علوی، اٹارنی جنرل، اور وہ خود شامل تھے۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ عدم اعتماد کے عمل سے صرف چار دن قبل عمران خان کی جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی، جہاں جنرل باجوہ نے یقین دلایا کہ وہ حالات کو کنٹرول کر لیں گے۔ ملاقات کے دوران عمران خان نے جنرل باجوہ سے انتخابات کا مطالبہ کیا، جس کی شرط یہ تھی کہ الیکشن جسٹس بندیال کی ریٹائرمنٹ کے دس روز بعد منعقد کیے جائیں۔

فواد چودھری نے مزید کہا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی تجویز شاہ محمود قریشی نے پیش کی تھی، جس پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی متفق تھیں۔ تاہم، انہوں نے اس وقت حماد اظہر کو بتایا کہ اس طرح کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ سے رابطہ ختم کرنا ایک غلطی تھی، اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں یقین تھا کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ انہوں نے جنرل فیض اور عمران خان سے درخواست کی کہ نواز شریف کو ملک سے باہر نہ بھیجا جائے۔فواد چودھری نے یہ بھی کہا کہ ان کا جنرل باجوہ کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں تھی، اور انہیں لگا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کو مینج کر لیں گے۔ تاہم، صورتحال اس کے برعکس ہو گئی۔

انہوں نے مسلم لیگ کے رہنماؤں رانا تنویر، ملک احمد خان، اور خواجہ آصف کی جانب اشارہ کیا، جو جنرل باجوہ کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے تھے۔ ان ملاقاتوں کے دوران یہ بتایا جاتا رہا کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام میں مقبولیت کھو چکی ہے، اور اگر جنرل باجوہ مسلم لیگ (ن) سے توسیع حاصل کریں گے تو وہ مقبول رہیں گے۔ فواد چودھری نے واضح کیا کہ تحریک انصاف کی عروج کا سہرا عدم اعتماد کے بعد ہونے والے فیصلوں کو جاتا ہے، اور یہ کہ 2018 میں بھی تحریک انصاف سب سے مقبول جماعت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کبھی بھی کسی ڈیل کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔یہ تمام بیانات پاکستان کی سیاسی صورتحال میں ایک نئے باب کا آغاز کرتے ہیں، جہاں پی ٹی آئی کی مستقبل کی حکمت عملی اور اس کی قیادت کی مقبولیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

Shares: