پاکستان بڑی مشکل سے سنبھلا ہے، لیکن ایک بار پھر انتشار کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ عمران خان، جنہیں ماضی میں بھی اسلام آباد کو سیاسی تجربات کا مرکز بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، اب 190 ملین پاؤنڈ کیس اور 9 مئی کیس کے آخری مراحل میں داخل ہونے پر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت کے باقی ماندہ افراد کو قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
پشاور میں بشریٰ بی بی کی ارکان اسمبلی کو دھمکیاں، جس میں انہوں نے کہا کہ ہزاروں افراد کو انتشار کے لئے نہیں لے کر آئیں گےتو پارٹی میں جگہ نہیں ہو گی،عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شدید مایوسی اور پریشانی کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ ان کی جماعت جھوٹے پراپیگنڈے، دھمکیوں، اور مالی وسائل کے ذریعے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ان کے غیر ملکی مفادات پورے ہو سکیں۔
عمران خان کے وہ بیانات جن میں انہوں نے ملک کی تباہی کو اپنے اقتدار سے مشروط کیا، ان کے عزائم کی عکاسی کرتے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے لاکھوں شہری بارہا ان کی اقتدار کی خواہش کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ حکومتی اقدامات، جیسے کنٹینرز لگا کر راستے بند کرنا اور موبائل سروس معطل کرنا، شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں۔اس دوران عام آدمی کے مسائل جیسے روزگار، بیماروں کی ہسپتال تک رسائی، اور اشیائے خوراک کی ترسیل بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اگر 24 نومبر کے قریب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے، جو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے عوام کو مشکلات میں ڈال رہے ہیں۔اور حکومت کو انتہائی اقدام پر مجبور کرتے ہیں، 24 نومبر کے قریب حکومت انتشاریوں کو روکنے کے لیے ممکنہ اقدامات کرے گی، شہریوں کو آنے والی مشکلات کا ذمہ دار اڈیالہ میں قید مجرم عمران خان اور اسکے ملکی اور غیر ملکی سرپرست ہوں گی
بلوچستان میں دہشتگردانہ حملے اور بھارتی میڈیا کا شرمناک کردار بے نقاب
ماہ رنگ بلوچ کا احتجاج ،دھرنا عوام نے مسترد کر دیا
ماہ رنگ بلوچ پیادہ،کر رہی ملک دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل
مظاہرین کے گوادر جانے کا مقصد تھا کہ سی پیک کو روک دیں،وزیراعلیٰ بلوچستان