مزید دیکھیں

مقبول

اکشے کمار نے ممبئی میں اپنا اپارٹمنٹ فروخت کردیا

بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار اکشے کمار نے...

سینیٹر ثانیہ نشتر کا استعفی منظور

اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے...

عمران خان کی بڑی جیت . تحریر:عفیفہ راؤ

عمران خان کو ایک بڑی جیت نصیب ہوئی ہے روس جیسے بڑے ملک نے اسلاموفوبیا پر اسی موقف کی تائید کی ہے جو پچھلے کئی سالوں سے عمران خان دہراتے چلے آ رہے ہیں۔خاص کر ایک سال پہلے جو فرانس کا واقعہ ہوا تھا اس کے بعد عمران خان کا جو موقف تھا اس کو آج عالمی سطح پر پذیرائی ملی رہی ہے اوراہم بات یہ ہے کہ یہ ملک ہے یا لیڈر خود مسلمان نہیں ہے۔

روس کے صدر پیوٹن نے کیا کہا ہے وہ تو میں آپکو بتاوں گا ہی لیکن پہلے میں آپ کو یاد کروا دوں کہ جب فرانس کا واقع ہوا تھا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کئے گئے تھے اس کے بعد سے عمران خان کا کیا موقف رہا تھا۔وزیراعظم عمران خان یہ کہتے رہے ہیں کہ مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کو روکنے کے لیے اسلامی ممالک کے سربراہوں کو مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔وہ اسلاموفوبیا کے خلاف مہم چلائیں گے اور باقی اسلامی ممالک کے لیڈروں کو بھی خط لکھیں گے۔ پیمغمبر اسلام کی گستاخی سے زیادہ تکلیف دہ بات اور کوئی نہیں ہو سکتی اور لیکن ان کے ساتھ مسلمانوں کے رشتے کی مغرب کو سمجھ نہیں ہے۔ ہم اپنی بات ان کو سمجھا سکیں گے۔ ہم آزادی اظہارِ رائے کو مانتے ہیں لیکن اس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، پیغمبر اسلام کے خاکے اور کارٹون اظہار رائے نہیں بلکہ سوا ارب مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔مغرب میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہولوکاسٹ پر بات کرے، یورپ میں چار ممالک ایسے ہیں جہاں ہولوکاسٹ کا ذکر کرنے پر ہی جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ مغرب میں گستاخانہ خاکوں کو نہ روکنا مسلمان حکمرانوں کی ناکامی ہے۔

عمران خان نے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو ساتھ ملانے کی بات کی تھی وہ یہ کام تو نہ کر سکے کیونکہ اس وقت مسلمان حکمرانوں کے مقاصد ہی کچھ اور ہیں سب سے بڑھ کر سعودی عرب جس کے ساتھ مسلمانوں کا عقیدت سے بھرپور جذباتی لگاو ہے آج وہاں پر محمد بن سلمان یہ بیان دے رہا ہے کہ وہ پانچ سالوں میں سعودی عرب کو یورپ بنائیں گے۔ یعنی ان کے لئے رول ماڈل ہی مغرب ہے وہ اپنی روایات کو چھوڑ کر مغرب کی طرف جا رہے ہیں۔ تو سوچ لیں جب ان کے مقاصد ہی یہ ہیں تو وہ مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔اور کچھ ایسا ہی ہوا تھا تمام اسلامی ممالک نے وقتی طور پر فرانس کی مذمت تو ضرور کی لیکن کچھ وقت کے بعد سب نارمل ہو گیا فرانس کے صدر سے ملاقاتیں بھی شروع ہو گئیں۔ لیکن عمران خان کا یہ کریڈٹ ضرور ہے کہ انہوں نے جو پہلے دن موقف اپنایا تھا۔ وہ اسی پر ڈٹے رہے اور اب ان کو ایک بڑی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کل ایک سالانہ نیوز کانفرنس سے خطاب کیا جس کے دوران وہاں کی ایک صحافی نے ان سے آزادی اظہار پر ایک سوال کیا۔ویسے تو اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ روس میں حکام اور خود ولادیمیر پیوٹن کی حکومت پر اپنے سیاسی حریفوں کو جیلوں میں ڈالنے اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں لگانے سے متعلق الزامات لگتے رہتے ہیں جس میں کئی ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں جو انٹرنیشنل میڈیا میں سرخیوں میں رہے ہیں۔

پیوٹن نے اس بات کو تو ایڈریس کیا ہی لیکن اپنے جواب میں اس نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیکر اور فرانس والے واقعہ کی مثال دیتے ہوئے اپنا موقف دیا کہ پیغمبر اسلام کی توہین مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے اور اسلام کے پیروکاروں کے مقدس احساسات کی خلاف ورزی ہے۔صدر پیوٹن نے صاف الفاظ میں کہا کہ پیغمبر اسلامﷺ کی توہین کو آزادی کا اظہار نہیں کہا جا سکتا۔ اس قسم کے اقدامات شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں اور یہ ان لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے جو اسلام کے ماننے والے ہیں۔اس حوالے سے انھوں نے فرانس میں چارلی ایبڈو میگزین کے دفتر پر ہونے والے حملے کی مثال بھی دی کہ ایسی باتیں انتہا پسندانہ سوچ میں اضافہ کرتی ہیں۔ اور واضح کیا کہ فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی اچھی بات ہے لیکن اس کی کچھ حدود ہیں اور اس سے دوسروں کی آزادی کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔

جس پر عمران خان نے بھی ٹوئیٹ کی کہ یہ میرے اس پیغام کی تائید ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا اظہار رائے کی آزادی نہیں۔ ہم مسلمانوں خصوصا مسلم رہنماؤں کو یہ پیغام غیرمسلم دنیا کے رہنماؤں تک ضرور پہنچانا چاہئے تاکہ اسلاموفوبیا کا تدارک کیا جا سکے۔اور حقیقتا یہ عمران خان کا کریڈٹ بھی ہے اس پر ان کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے اور اب دنیا نے ان کے موقف کو تسلیم بھی کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ ان کی ایک جیت ہے۔لیکن اب اس جیت میں کئی اور سیاستدان بھی اپنا حصہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ سیاستدان جو عمران خان پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے تھے وہ اب بھی عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ دیتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں۔جیسے مولانا فضل الرحمان نے اس پر ٹوئیٹ کی ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کا یہ بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی اظہار رائےکی آزادی یا فن کا اظہار نہیں ھے عالم اسلام کے اس موقف کی تائید ھے کہ حضور صلی اللہ علیہ کی حرمت و تقدس آفاقی ھے جس پر ھم انکو خراج تحسین پیش کرتے ھیں۔تو یہاں میں یہ کہوں گا کہ سیاسی اختلافات ایک جگہ لیکن مولانا صاحب کو عمران خان کو کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کیونکہ عالم اسلام میں ایک عمران خان ہی تھا جو اس موقف پر ڈٹا ہوا تھا۔اور آج اسے سفارتی سطح پر ایک بڑی جیت ملی ہے۔لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ جیت ملکی سیاست میں عمران خان کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتی ہے؟؟

آج یہ اطلاع بھی سامنے آئی ہے کہ پارٹی تنظیموں کی تحلیل کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے تحریک انصاف کی نئی تنظیم کا اعلان کردیا ہے جس میں اسد عمر تحریک انصاف کے نئے سیکرٹری جنرل ہوں گے پرویز خٹک خیبر پختونخواہ کے علی زیدی سندھ کے قاسم سوری بلوچستان کے شفقت محمود پنجاب اور خسرو بختیار جنوبی پنجاب کے صدور ہوں گے ۔جس میں سب سے پہلے تو مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کی یہ تنظیم سازی کرنے کے لئے ان کا میرٹ کیا تھا اور یہ کن اصولوں پر کی گئی ہے۔ ویسے تو اگر عمران خان نے یہ تنظیم سازی کرنی تھی تو کے پی کے الیکشن سے پہلے کرتے تاکہ اس کا کوئی فائدہ بھی نظر آتا۔ لیکن نہیں وہاں پر الیکشن ہارنے کے بعد یہ سب کیا گیا اور وہ بھی اچانک کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے اور ایک دم سے اعلان ہو گیا۔ یہ تو وہی معاملہ ہوا کی طلال چوہدری صاحب رات کو کہیں گئے جب وہاں مار پڑی خبر میڈیا تک پہنچ گئی تو پتہ چلا کہ تنظیم سازی ہو رہی تھی۔وہی پی ٹی آئی نے کیا کہ کے پی کے الیکشن میں ہارنے کے بعد تنظیم سازی ہو گئی۔اور جو یہ انتخاب کیا گیا ہے اس میں میرٹ کیا رکھا گیا ہے یہ بھی سمجھ سے باہر ہے۔پرویز خٹک جو اتنے سالوں سے کے پی کے میں آپ کے ساتھ ہیں ان کی موجودگی میں آپ وہاں سے ہار گئے اور انہی کو آپ نے ایک بار پھر صدر بنا دیا ہے۔دوسری طرف علی زیدی کا صرف ٹوئیٹر پر ایکٹو رہنے کے علاوہ کیا کریڈٹ ہے وہ بھی ہمیں نہیں پتہ۔۔پھر شفقت محمود جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ ایک بڑا نام ضرور ہیں لیکن حلقوں کی سیاست اور ورکرز کے حوالے سے وہ بالکل ایک اچھی چوائس نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ ٹوئیٹر پر لوگ کمنٹ کر رہے ہیں کہ کیا عمران خان کو پنجاب میں شفقت محمود سے بہتر کوئی انسان نظر نہیں آیا۔

اس کے بعد ایک نام جس نے رہی سہی کسر ہی پوری کر دی وہ خسرو بختیار کا ہے۔ ابھی تک جنوبی پنجاب کے لئے انھوں نے کیا کیا تھا جس کو ان کو یہ انعام دیا گیا ہے۔ پھر یہ وہی خسروبختیار ہیں جن کا نام شوگر مافیا اسکینڈل میں تھا کیا یہ وہاں سے کلئیر ہو گئے جو عمران خان نے ان کو یہ عہدہ دے دیا۔اور اسد عمر سے لیکر خسرو بختیار تک ان لوگوں میں جو ایک بات Commonہے وہ یہ کہ ان تمام شخصیات سے جب ہم میڈیا والے کسی ایشو پر ان کا یا ان کی پارٹی کو موقف لینے کے لئے رابطہ کرتے ہیں تو یہ ہمیں Availableنہیں ہوتے۔ کال سننا تو دور کی بات یہ میسج کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھتے تو آپ خود سوچ لیں میڈیا والوں کے ساتھ ان کے یہ حالات ہیں تو اپنے حلقے کے لوگوں کے ساتھ ان کا کیا رابطہ ہوگا۔یا پھر صرف دکھاوے کے لئے ان عہدوں پر یہ نام بٹھا دئیے گئے ہیں باقی نیچے وہی حالات رہنے ہیں جو کہ اتنے سالوں سے چلے آ رہے ہیں۔تو اگر یہی سب چلتا رہے گا تو عمران خان صاحب ملکی سیاست میں آپ کے مستقبل اور تاریک ہی ہوتا جائے گا اور جو بھی ہو الیکشن آپ نے پاکستان میں لڑنا ہے روس میں نہیں۔ ووٹ آپ نے پاکستان کی عوام سے لینا ہے ان کے مسائل ح کریں ان پر بھی توجہ دیں تاکہ سفارتی سطح کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی آپ کے معاملات بہتر ہو سکیں۔