سئنیر اینکر پرسن و صحافی مبشر لقمان نے اپنے یوٹیوب چینل مبشر لقمان آفیشل پر جاری کردہ ویڈیو میں کہا کہ اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ عمران خان کی حمایت میں پیچھے
کیوں ہٹ گئے ہیں ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک غلط سوال ہے، میری جدو جہد ہمیشہ اسٹیٹس کو
کے خلاف رہی ہے میں بھی بحثیت پاکستانی دیگر بائیس کروڑ پاکستانیوں کی طرح چاہتا ہوں کہ پاکستان ترقی کرے اور پاکستان کو لوٹ کھسوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والوں سے اسے نجات ملے۔ اس حوالے سے آپ کو جو صحیح لگتا ہے اسے آپ اپنی عقل ا ور حقائق کے مطابق سپورٹ کرتے ہیں۔ مجھے الہام تو نہیں ہونا تھا کہ عمران خان اپنے دور حکومت میں اتنے یو ٹرن لیں گے کہ پاکستان ایک چوک بن جائے گا۔ مجھے جو غلط نظر آیا میں نے اس کے خلاف آواز آٹھائی اور جو صحیح لگا اس کو سپورٹ کیا ۔ اور آج بھی میں کسی پولیٹیکل پارٹی نہیں پاکستان کے ساتھ کھٖڑا ہوں۔
سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یہی میری بنیادی زمرہ داری ہے۔ عمران خان کے دور حکومت کے ڈھائی سال پر اگر ہم نظر ڈالیں اور سوچین کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا تو ایسا لگتا ہے پوری قوم نے کھویا ہی کھویا ہے۔
عمران خان سے اللہ نے جو بڑا کام لیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ایک ہی بال میں تمام سیاسی مداریوں کو بولڈ کر دیا۔ اپوزیشن اتنی بے بس تھی کہ پاکستان کی تاریخ میں شائد کبھی نہ ہو، قوم نے عمران خان کو امید پر ووٹ دیا اور بڑی امیدیں لگائیں، اداروں نے عمران خان کا اتنا ساتھ دیا کہ ان پر پارٹی بننے کا الزام تک لگ گیا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا صرف بربادی ہی بربادی پاکستان کا مقدر بن گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی اتنی کہ اللہ کی پناہ۔ کسی غرب آدمی نے پکوڑے بھی کھانے ہوں تو وہ دس دفعہ سوچتا ہے۔ آٹا۔ چینی، تیل، سبزیاں فروٹ، بجلی، گیس ہر چیز کو پر لگ گیا، مافیا نے جتنا خون اس دور حکومت میں غریب عوام کا چوسا ہے شائد ہی کبھی چوسا ہو۔ گندم کا بحران آیا تو اربوں روپے کی باہر سے مہنگی گندم منگوائی گئی۔ جبکہ پاکستان میں کسان کو گندم کی صحیح قیمت دینے کے لیئے تیار نہیں۔ چینی مافیا کو کنٹرول کرنے کی بات کی تو چینی کی قیمت کنٹرول سے باہر ہو گئی اور آج کے دن تک رمضان بازاروں اور یوٹیلٹی اسٹورز پر غریب آدمی گرمی میں لمبی لمبی لائنوں میں کھڑا نظر آتا ہے۔ کسی بھی چیز پر پلاننگ سے پہلے اس پر ہاتھ ڈالنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
عمران خان کی ذات میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، وہ ضدی ہوتے جا رہے ہیں اور پالشی ٹولہ جو ان کی ہاں میں ہاں ملائے وہ ان کے سب سے قریب ہے جن کا دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے پہلے کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔
منتخب نمائندے پریشان ہیں۔ جو عمران خان کی برائیاں کرتے تھے نظریہ ضرورت کے تحت ان کو اپنا مشر بنا لیا گیا۔ جس پی ٹی آئی نے تبدیلی کا خواب دیکھا تھا وہ خود تبدیل ہو گئی۔
سینئیر اینکر پرسن مبشر لقمان نے مزید کہا کہ اپوزیشن کا ہر وہ قدم جس پر عمران خان نے تنقید کی خود بڑے فخر سے اس پر عمل کیا۔۔
ملک کو آئی ایم ایف کی گود میں ڈال دیا گیا،
فی ارکان اسمبلی کو سینٹ الیکشن میں پانچ سو
ملین کا ترقیاتی پیکج دیا، قرضے لیئے اور بجلی اور گیس کی قیمتوں سمیت مہنگائی کے طوفان کو ڈالر سے جوڑ دیا۔ گزشتہ چار ماہ سے ڈالر نیچے جا رہا ہے مگر مہنگائی پھر بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔
مستقل مزاجی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں اقتدار میں آنے سے تین سال پہلے بتا دیا گیا کہ اسد عمر سمیت ہر چیز کی ٹیم تیار ہے۔ نوے دنوں میں ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ پھر اقتدار میں آتے ہی پتا چلا کہ اسدعمر معیشت نہیں چلا سکتے ان کی جگہ حفیظ شیخ کو لے آئے انہوں نے اس ملک کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا اور پھر جب وہ سینٹ الیکشن کے بعد استعفی دینے آئے تو ان سے استعفی نہیں لیا بلکہ پندرہ دن بعد خود انہیں ذلیل و رسوا کر کے نکال دیا۔ پندرہ دن میں ایسی کیا تبدیلی آگئی حالات میں۔۔؟
کوئی بھی وزارت اٹھا کے دیکھ لیں ہر وزیر تین چار دفعہ تبدیل ہو چکا ہے۔ انہیں جیسے تبدیل کیا جا رہا ہے ایسے تو کوئی میچ میں فیلڈنگ نہیں تبدیل کرتا۔ اگر وہ ایک منسٹری میں نہیں چل رہے تو
یا
تو وہ نااہل ہیں یا پھر کرپٹ۔ تیسری کوئی وجہ ہے نہیں۔ تو پھر نا اہل یا کرپٹ بندے سے ایک وزارت لے کر دوسری دینے سے کیا تبدیلی آئے گی۔
وزارت داخلہ، اطلاعات، اقتصادی امور، ریلوے،صحت سب کی ایک ہی کہانی ہے
عامر کیانی پر ادوایات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کا الزام آیا تو انہیں فارغ کر کے پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا ان کی جگہ پر ظفر مرازا آئے تو وہ بھی چھپے رستم نکلے اور انہوں نے وبا کے دوران ماسک اور ادوات پر ایسا گھناونا کھیل کھیلا کہ ڈاکو بھی شرما جائیں۔ انہیں گھر بھیج دیا گیا۔۔ لیکن احتساب نہیں کیا گیا۔۔
پھر پٹرولیم کی بات کریں تو وہاں ندیم بابر نے ایسے گل کہلائے، مافیا کے آلہ کار بنے اور ملک میں پٹرول بحران پیدا کروا کر غریبوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ انہیں بھی فارغ کیا گیا مگر احتساب نہیں کیا گیا۔
جن وزیروں کی فیملیوں کے نام شوگر اسکینڈل میں آئے وہ ابھی تک وزارتوں پر براجماں ہیں۔ کیوں کیونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
لوگوں کو دیکھانا ہے کہ عمران خان کتنے سخت ہیں تو دوہزار اٹھارہ کے سینٹ الیکشن میں دوسروں کو ووٹ دینے والوں کو فارغ کر دیا گیا جب یہی معاملہ حفیظ شیخ کے معاملے میں پیش آیا تو خاموشی اختیار کر لی کیونکہ قومی اسمبلی کے ارکان کو چھیڑنے کا مطلب تھا عمران خان گھر جائیں۔
عاطف خان اور شہرام ترکئی وزیر اعلی کے خلاف بات کریں تو پارٹی ڈسپلن پر انہیں وزارتوں سے فارغ کر دیں، یہی کام پنجاب میں ہو تو نظریہ ضرورت کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کر لیں۔ کیونکہ سیٹیں کم ہیں ۔۔ترین کے خلاف احتساب کا نعرہ لگائیں ، ہم خیال سامنے آئیں تو بیک چینل ڈپلومیسی شروع ہو جائے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عمران خان نے اس ملک کا صدر، تین گورنر دو وزیر اعلی اور سینکڑوں وزیر اور مشیر اپنی مرضی سے لگائے اگر وہ کام نہیں کریں گے تو الزام عمران خان پر نہیں آئے گا تو اور کس پر آئے گا۔
ہمارا لینا دینا رزلٹ سے ہے،
اس ملک کی ترقی سے ہے
اس ملک کی سالمیت سے ہے۔
آج ڈھائی سال کے بعد شوکت ترین بتا رہے ہیں کہ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے جبکہ عمران خان کئی ماہ سے بتا رہے ہیں کہ ملکی معیشت درست سمت پرچڑھ گئی ہے۔ اگر درست سمت پر ہے تو انہی کا وزیر خزانہ کیوں ہرزہ سرائی کر رہا ہے کوئی ہے جو ان سے پوچھے۔
صحت کے نظام میں ایک کوڑی کا کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، تعلیم کا نظام برباد ہو چکا ہے رہی سہتی کسر کرونا نے نکال دی ہے۔
آئی ٹی کا ایک وزیر چاند اور عید کی تاریخ پر پورے ملک میں قہرام مچوا دیتا ہے تو نیا
وزیر آکر کہتا ہے کہ یہ تو اس وزارت کا کام ہی نہیں۔ نہ کوئی وژن ہے نہ ہی کوئی منصوبہ بندی، جس طرح مزدور دیہاڑی لگاتا ہے اسی طرح یہ حکومت بھی دن پورے کر رہی ہے۔
اور تو اور کار مافیا نے پاکستان کی تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور ایک سال میں چا رچار دفعہ قیمتیں بڑھائی ہیں لیکن حکومت بے بس ہے۔
مہنگائی ڈالر کی وجہ سے، ملک کی بربادی سابقہ حکمرانون کی وجہ سے،معیشت کی بربادی قرضے کی وجہ سے، انصاف عدالتوں کی وجہ سے۔ قصہ مختصر ہر چیز کسی نہ کسی کی وجہ سے خراب ہے تو آپ نے ڈھائی سال میں ٹھیک کیا کیا ہے۔کوئی ایک چیز ہی بتا دیں۔
چاہے معاملہ تحریک لبیک کا ہو یا کوئی اور اسے انتہائی بھونڈے طریقے سے ڈیل کیا گیا، لاک ڈاون نہیں لگانا تو کرونا ایک عام سا فلو ہے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور جب وہ پھیلنے لگے تو عوام کو ذمہ دار ٹھہرا کر ہاتھ جھاڑ دو۔ کرونا ویکسین کی بات کرو تو ابھی تک ایک فیصد پاکستانیوں کو بھی یہ نہیں لگی ہے۔
احتساب کی بات کرو تو پاکستان کی تاریخ میں سب سے بھونڈا
مزاق احتساب کے نام پر اس دور حکومت میں ہوا ہے کسی ایک بھی قابل ذکر سیاست دان سے ایک دھیلی بھی وصو ل نہ کیا جا سکا۔
بھارت سے تعلقات کی بات آتی ہے تو ایک دن ای ای سی بھارت سے چینی اور کپاس کی برآمد کی اجازت دیتی ہے تو اگلے دن عوامی تنقید پر قابینہ مکر جاتی ہے۔ سعودی عرب کے خلاف شاہ محمود قریشی بیان دیتے ہیں اور پھر اس کا انجام سب کےسامنے ہے۔ کبھی ریاست مدینہ کا درس اور کبھی مغرب کی تہذیب اور کبھی چین کا معاشی نظام۔۔ آج تک کسی بھی چیز پر ایک قدم بھی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
عمر شیخ کو لاہور کا سی سی پی او لگانے سے لے کر ن لیگ کو این آر او دینے تک ہر چیز پر یو ٹرن لیئے گئے۔
ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان پر سابقہ حکمرانوں نے تیس ہزار ارب کے قرضے چڑھا دیئے ہیں۔ لیکن اب یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے عمران خان کے دور حکومت میں لیئے گئے اور آج ملک پر 45ہزار ارب کے قرضے ہیں۔ وزیروں مشیروں کے پروٹوکول جاری ہیں۔ کوئی ایک چیز بتا دیں کہ عمران خان کے آنے سے یہ ٹھیک ہوئی۔
نہ گورنر ہاوس گرائے گئے اور نہ وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی میں بدلا گیا۔ جب کر نہیں سکتے تو کہتے کیوں ہو ۔۔ کیوں عوام کو غلط امید دلواتے ہو۔ کیوں ان کی امیدوں کا جنازہ نکالتے ہو۔
اب کب تک ہم عمران خان کے دیئے ہوئے لالی پاپ
کے سہارے تلخ حقائق کو نطر انداز کرتے رہیں گے۔ پنجاب کی بات کریں تو صرف ایک نام ہی کافی ہے اور وہ ہے
عثمان بزدار۔۔ وہ کہتے ہیں نہ نام ہی کافی ہے عثمان بزدار کا نام لیتے ہی۔ تباہی اور بربادی کی تمام تصویریں نظروں کے سامنے آجاتی ہیں۔
فارن پالیسی کی بات کریں تو حکومت عمران خان کی ہے اور امریکی سفیر کبھی حمزہ شہباز سے مل رہا ہے تو کبھی چینی سفیر شہباز شریف سے مل رہا ہے کیوں ۔۔
کیونکہ وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ ہم نہیں چل سکتے۔ وہ قابل اعتبار نہیں اس کو سوچ اور فیصلے ہر روز بدلتے ہیں۔ اور ملکوں میں تعلقات مستقل مزاجی کی بنیاد پر چلتے ہیں۔
میری یہ ویڈیو ابھی صرف ایک ٹریلر ہے آنے والے دنوں میں ہم ان ڈھائی سالوں میں ملکی بربادی کی داستانوں سے مزید پردہ ا ٹھائیں گے۔