انڈیا میں جناح کا دوبارہ جنم ،بھارتی مسلمانوں کے لیے امید کی نئی کرن ،مبشر لقمان کے تہلکہ خیز انکشافات

0
34

انڈیا میں جناح کا دوبارہ جنم ،بھارتی مسلمانوں کے لیے امید کی نئی کرن ،مبشر لقمان کے تہلکہ خیز انکشافات

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ بہت سے لوگوں کا یہ موقف درست ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جس تباہی کی طرف بھارت کو لے جا رہا ہے بھارت کی بربادی کے لئے یہی کافی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پورے خطے کے امن و آشتی کو بھی آگ میں جھونکنے پر تلا ہوا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی دہشت گرد اور متعصب وشدت پسند تنظیم آر ایس ایس کے ایجنڈے اور منشور پر عمل پیرا ہےجو کہ بھارت میں مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارت میں ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل عام کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ سکھوں کی تحریک کو ختم کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ مختصر یہ کہ مودی سرکار ہر طرح سے بھارت کے اندر اور پڑوسی ممالک کے ساتھ نفرت اور جنگ کی آگ بھڑکانے پر کمر بستہ ہے۔ اس وقت بھارتی مسلمان گھمبیر صورتحال سے دوچار اور سخت پریشان ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کون سا راستہ اپنائیں اور کون سا ترک کریں۔ ان کے لیے دنیا آہستہ آہستہ تنگ کی جا رہی ہے۔ معاشی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے۔ گائے کے نام پر کاٹا جا رہا ہے۔ لو جہاد کے نام پر ستایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں مسلمان اپنا سر چھپانے کی جگہ تلاش رہے ہیں۔ اسی لیے اس وقت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین یا کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے بھارت کے دوسرے حصوں میں توسیع کی جا رہی ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کئی دہائیوں تک شہر حیدرآباد تک محدود رہنے والی AIMIM اے آئی ایم آئی ایم نے بھارت کی اُن ریاستوں میں انتخابات لڑنے شروع کر دیے ہیں جن میں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں۔ کرناٹک، آندھرا پردیش، مہاراشٹر، اترپردیش اور بہار کے بعد اب یہ جماعت مغربی بنگال اور تمل ناڈو میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر چکی ہے۔ اس پارٹی نے ریاست بہار میں حال ہی میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ نشستوں پر جیت حاصل کی تھی ۔ اگر اس کا موازنہ گانگریس سے ہی کر لیا جائے تو کافی اچھی کارکردگی تھی ۔ اس نے 24 اسمبلی حلقوں سے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا۔ بھارت میں یہ جماعت مسلمانوں کی ایک نئی سیاستی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے ۔۔ کیونکہ جس طرح کی سیاست بی جے پی کر رہی ہے ایسے ماحول میں بھارتی مسلمان ایک چھتری کی تلاش میں ہیں جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کر سکیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ بہار میں اے آئی ایم آئی ایم کے پانچ امیدواروں کی جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان کیا چاہتے ہیں۔ اور ان کی سوچ بدل چکی ہے ۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ اسی جماعت نے پانچ سال پہلے بھی بہار میں اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن ایک نشست بھی جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ مگر آج کی جیت بی جے پی کی مسلم مخالف پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اگر آپ اترپردیش میں بی جے پی حکومت کی پالیسیاں دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں رہی۔ مسلمانوں کے پاس مزاحمت ہی سب سے بڑا ہتھیار بچا ہے۔ اسی وجہ سے کانگریس بھی اور بی جے پی بھی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے پھیلاؤ سے کافی پریشان نظر آ رہی ہیں۔ کانگریس کا اے آئی ایم آئی ایم پر الزام ہے کہ یہ جماعت مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کر کے بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہی ہے جبکہ بی جے پی کا الزام ہے کہ اسد الدین اویسی کی قیادت میں یہ جماعت نفرت کی سیاست کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ گانگریسی اور بی جی پی والے دنوں ہی اسد الدین اویسی کو دوسرا جناح کہہ رہے ہیں۔ بی جی پی والے تو اس چیز کا شور مچا رہے ہیں کہ اس جماعت کے لیڈر جہاں بھی جاتے ہیں نفرت پھیلاتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ پندرہ منٹ کے لیے پولیس ہٹا دو ہم فیصلہ کریں گے۔ اور کہتے ہیں کہ اویسی لڑیں یا اویسی جیسے 36 آجائیں آج کے بھارت میں بی جے پی کو ہرانے کی طاقت کسی میں نہیں۔ ہم اس ملک میں کوئی دوسرا جناح پیدا نہیں ہونے دیں گے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہاصل میں گانگریس اور بی جے پی ۔۔۔ اویسی سے اس لیے ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے پاس وہ کرشمہ اور طاقت ہے کہ وہ مسلمانوں کے قومی رہنما کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔ ۔ جو راستہ اسد الدین اویسی نے چنا ہے وہ پُرخطر ضرور ہے لیکن اس سے ہٹ کر کوئی راستہ بچا نہیں۔ کیونکہ اگر بھارت میں 180 ملین مسلمان ہیں تو ان کا سیاسی اور معاشی مستقبل سوالیہ نشان بنا ہوا ہے؟ کیونکہ بی جے پی تو بے خوف ہو کر کہہ چکی ہے کہ بہت وقت تک ہم نے سوچا کہ ہم کانگریس جیسا بنیں گے اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے چلیں گے لیکن پھر ہمیں احساس ہوا کہ اگر ہم 15 فیصد مسلمانوں کو چھوڑ کر 85 فیصد ہندوؤں پر فوکس کریں گے تو اس میں کوئی عذر نہیں، مسلمان جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔بی جے پی کی یہ پالیسی کھلم کھلا ہے۔ اس میں کوئی راز داری نہیں۔ بی جے پی نے یہ باتیں آن ریکارڈ کہی ہیں۔ یہ ان کے منشور کا حصہ ہے ۔ آپ دیکھیں گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے 330 نشستیں حاصل کیں لیکن ان میں سے ایک بھی رکن مسلمان نہیں تھا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں تک کہ تلنگانہ میں بی جے پی کے صدر بنڈی سنجے کمار، جو بدقسمتی سے رکن پارلیمان بھی ہیں، آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ ہم پرانے شہر حیدرآباد پر سرجیکل سٹرائیک کریں گے۔ اس طرح کے بیانات سے ان کی مسلم مخالف سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سوچ کے پیچھے خطرناک منصوبہ ہے۔۔ بھارت میں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی اور نمائندگی کے تناسب سے وزارت نہیں ملتیں۔ خود بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت کی دس بڑی ریاستوں میں 80 فیصد مسلمان آباد ہیں ۔اس لحاظ سے وہ ریاستوں میں 281 وزارتوں کے حق دار بنتے ہیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ صرف 16 مسلمان ریاستی وزیر ہیں ۔بہار میں حالیہ ریاستی انتخابات کے نتینجے میں این ڈی اے کی حکومت بنی جس میں بی جے پی سب سے بڑی اتحادی جماعت ہے لیکن وہاں کی 15 رکنی کابینہ میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ چند دنوں کی ہی بات ہے کہ بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں پولیس کی جانب سے مسلسل ہراساں کیے جانے پر مسلمان خاندان نے ٹرین کے آگے چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ 42 سالہ عبدالسلام ان کی 36 سالہ بیوی نور جہاں 14 سالہ بیٹی سلمیٰ اور 10 سالہ بیٹے قلندر نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرنے کے بعد ایک چلتی مال بردار ریل گاڑی کے آگے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت میں اب ہمارا کوئی سرپرست نہیں نہ ہی کوئی مددگار ہے۔ ہم نے اپنے زندگی میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی نہ ہی ریاست کے لیے کچھ غلط کیا۔ ہمیں ہراساں کیا جارہا ہے جسے برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لیے خاندان سمیت خودکشی کررہا ہوں۔ مگر اس پر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔۔۔ باقی آپ صورتحال کا اندازہ کر لیں ۔ کیونکہ بھارت میں مسلمانوں کے حوالے سے ایسی دسیوں ہزاروں خبریں روزہ مرہ معمول کا حصہ بن چکی ہیں ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں یہ بھی یاد کروادوں کہ ہفتہ قبل بھارت امریکی مسلم کونسل کے زیراہتمام نسل کشی کے موضوع پرآن لائن مباحثے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بھارت میں حکمران جماعت کی نگرانی میں
20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کا خدشہ ہے۔ ویسے بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ابھی بھی جاری ہے۔ کشمیراورآسام میں مسلمانوں پرظلم قتل عام سے پہلے کا مرحلہ تھا۔ بھارت میں انسانیت کیخلاف منظم جرائم کا سلسلہ جاری ہے۔ بابری مسجد کوگرانا اورمندرتعمیر کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دہلی فسادات میں پولیس نے سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا۔ مسلمانوں پر ظلم انکی معاشی صورتحال کو بدترکر رہی ہے۔ مسلمان مستقل خوف اورعدم تحفظ کا شکار ہیں۔ مسلمانوں پرظلم سے سماجی اوراقتصادی حالت خراب ہو رہی ہے۔ بھارت مسلمانوں کے انسانی اورآئینی حقوق سےانکار کر رہا ہے۔ اور بھارت کے مسلمانوں کو ایک نئے جناح کا انتظار ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسد الدین اویسی کی شکل میں بھارتی مسلمانوں کو نیا جناح مل پاتا ہے یا نہیں ۔

Leave a reply