افغانستان کے بارے عموما لوگوں کا خیال یہ ہے کہ وہاں پر امریکی ، اسکے اتحادیوں اور طالبان کے مابین ایک جنگ وجدل جاری تھی ۔ یعنی صرف دو حریف تھے ۔
۔ پر رکیں ۔ کہانی میں زرا twist ہے ۔ افغان سرزمین پر دو ممالک اور بھی تھے جو ایک دوسرے سے نبر آزما تھے ۔ ایک بھارت اور پاکستان ۔۔۔ ۔ سب سے پہلے اگر کسی دل میں یہ خیال ہے کہ بھارت افغانستان میں ڈولیپمنٹ کرنے کے لیے بیٹھا ہوا تھا ۔ وہاں ڈیم بننا اور انکی پارلیمنٹ کی بلڈنگ بننا، سڑکیں بننا ہی اسکا کام تھا ۔ تو میں اسکی سادگی پر ہنس ہی سکتا ہوں ۔
۔ کوئی تو وجہ ہوگی کہ اتنے شاید بھارتی افغانستان میں نہیں تھے ۔ مگر انکے کونسل خانے افغانستان کے ہر شہر میں تھے ۔ پھرشہر بھی وہ جو پاکستانی سرحد کے قریب ہوں ۔ بھارت کی چالوں بارے تو پاکستان کو پہلے ہی پتہ تھا ۔ اور ہمارا دفتر خارجہ اس بارے بھارت کو دنیا میں ایکسپوز بھی کرتا رہا ہے ۔ ٹی ٹی پی سے لے کر بی ایل اے اور اس جیسی دیگر تنظیموں ۔۔۔ ان کا سب کا ماسٹر مائنڈ بھارت تھا ۔ ۔ اب یہ جو آہ وبکا بھارت میں جاری ہے اسکی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ حقیقت میں پاکستان نے بھارت کو افغانستان میں چت کر دیا ہے ۔ ۔ اس وقت سہیل شاہین ہوں ، ذبیح اللہ مجاہد ہوں ، یا شہباب الدین دلاور سب بھارت کو باری باری اسکی افغانستان میں اوقات اس لیے دیکھا رہے ہیں ۔ کہ بھارت اب نئی گیم کھیلانا شروع ہوگیا ہے ۔
۔ بھارت اب دنیا کو یہ باور کروانے کے چکروں میں ہے کہ پاکستان اورافغان طالبان مل کر بھارت پر حملہ آور ہوں گے ۔ کبھی یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ مسعود اظہر طالبان سے ملے ہیں تو کبھی ان کو امر اللہ صلاح انقلابی لیڈر دیکھائی دینا شروع ہوجاتا ہے ۔ وجہ صرف ایک ہے ۔ جو طالبان نے کلیئر کر دی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونا دیں گے ۔ اس کا دکھ سب سے زیادہ بھارت کو ہے ۔ ۔ یہ تین بلین ڈالرز کا اس کو اتنا دکھ نہیں ہے ۔ اصل سرمایہ کاری اس کی ٹی ٹی پی اور بی ایل اے والی ڈوبی ہے ۔ ۔ اب یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ دراصل بھارت افغان فورسز کو ٹریننگ دیتا ہی نہیں تھا ۔ یہ کرتے کچھ یوں تھے ۔ ان افغانوں کو electکرتے تھے جن کا تعلق پاکستان اور افغانستان دونوں سے ہوتا ۔ پھر انکو بھارت لے جا کر ۔ ان کو پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ۔ ذہن سازی کی جاتی ۔ اور جب کوئی ایسا مشن ہوتا تو ان کو افغانستان بھیج دیا جاتا ۔ اور یہ وہاں سے پاکستان پہنچ کر اپنا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچاتے ۔ اس میں امراللہ صالح نے بھارت کا پورا پورا ساتھ دیا ۔ کیونکہ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ۔ یوں بھارتی ۔۔۔ را۔۔۔ اور این ڈی ایس کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کا مغربی بارڈر بھی destablizeکرنے میں لگی ہوئی تھی ۔ پر اب اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان اس امتحان میں بھی سرخرو ہوچکا ہے ۔ اس طرح ایک اور محاذ پر پاکستان نے بھارت کو شکست فاش دے دی ہے ۔
۔ یہ فتح بھی ان گمنام جوانوں اور سپاہیوں کے نام ہے جن کو کوئی نہیں جانتا ۔ کیونکہ یہ جنگ ٹینکوں اور طیاروں اتار کر نہیں لڑی گئی ۔ پس پردہ رہ کر کام کرنے والوں نے جیتی ہے ۔ یہ کام انٹیلی جنس ایجنسیز اور سفارت کاروں نے کیا ہے۔ ۔ اسی لیے کابل میں سابقہ ہندوستانی سفیر گوتم نے طالبان کے قبضے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ افغان چہرے کے ساتھ پاکستان کی پیش قدمی ہے۔۔ اب دنیا بھی اس بات کو مان رہی ہے کہ پاکستان کو اس جنگ میں فتح ملی ہے اور انڈیا افغانستان میں بیس سال لگا کر بہت لوگوں کی ذہن سازی کرکے 14 قونصل خانے کھول کر، ہزاروں افغان طالب علموں کو وظیفے دے کر اور سب سے زیادہ یہ کہ تین ارب ڈالر خرچ کرکے بھی ہار گیا ہے اور اب اس کی حکومت جو ایک سکتے کی کیفیت میں ہے۔ آئندہ کے لیے وہ راستے ڈھونڈ رہی ہے۔ ۔ پر یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ ابھی مکمل طور پر ختم بھی نہیں ہوئی ہے ۔ اس وقت بھارت ان کوششوں میں ہے کہ کسی طرح ان ٹی ٹی پی والوں کو طالبان سے منحرف کرکے داعش کی چھتر چھایا میں لیا جائے ۔ اور پھر وہاں سے نئی گیم کا آغازکروایا جائے ۔
۔ جہاں طالبان اپنے آپ کو ایک سخت گیر ملیشیا سے زیادہ سیاسی قوت بنانے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں ۔ اب انکے خلاف افغانستان کے اندر سے ہی نئی سازش رچی جارہی ہے ۔ جس میں
ISIS-Kکو ایک ایسی طاقت بنانے کی کوشش جاری ہے ۔ جس میں TTP سمیت تمام طالبان مخالف طاقتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے گا ۔ اگر یہ ہوجاتا ہے تو یہ خطے میں ایک اور نئے گھناونے کھیل کا آغاز ہے۔۔ حالانکہ دیکھا جائے تو افغانستان میں جنگ تو ختم ہوچکی ہے ۔ امن آچکا ہے ۔ اب یہ نئے سرے سے پھر سے جنگ کی شروعات کرنے کی کوشش کی جاری ہے ۔ ۔ جوبائیڈن بھی دنیا کو بتا رہا ہے کہ بہت زیادہ یہ اسلامک اسٹیٹ والے افغانستان میں آگئے ہیں۔ یہ اور حملے بھی کریں گے ۔ اس لیے ہم ڈرون حملے جاری رکھیں گے ۔ ۔ اب رک جائیں سوال یہ ہے کہ داعش یا اسلامک اسٹیٹ کو افغانستان میں چلا کون رہا ہے ۔ تو 8 اکتوبر 2020 کو فارن پالیسی میگزین نے لکھا تھا کہ انڈینز اور سینٹرل ایشیائی لوگ اسلامک اسٹیٹ کا نیا چہرہ ہیں۔۔ یہ لکھتا ہے کہ شام میں جاری عالمی جہادی تحریک میں بھی ہندوستانی اور وسطی ایشیائی لوگوں کا ایک اہم رول تھا۔۔ اقوام متحدہ کی جون کی رپورٹ کے مطابق امریکی انخلا سے پہلے کچھ مہینوں میں آٹھ سے دس ہزار جہادی جنگجو وسط ایشیائی ریاستوں سے افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ طالبان اور زیادہ تر اسلامی ریاست خراساں میں شامل ہوئے۔
۔ اب یاد کریں وہ اسٹوری جس میں بھارتی بینک دہشتگردی کے لیے منی لانڈرنگ میں ملوث نکلے تھے۔ پھر اجیت ڈول کے بیانات کو ملا لیں تو ساری کہانی آپکو خود سمجھ آجائے گی ۔ ۔ نئی گریٹ گیم شروع ہو چکی ہے ۔ یہ BRI اور greater euroasia partnership vs B3W بھی ہے ۔ اور روس چین ایران پاکستان بمقابلہ امریکہ نیٹو اور بھارت بھی ہے۔ ۔ دیکھا جائے تو اگر طالبان دیگر دہشت گرد گروہوں کو عالمی دہشت گردی سے نہیں روک پائے تو پھر عالمی طاقتیں وہی کریں گی جو داعش کے خلاف انہوں نے عراق اور شام میں 2014ء میں کیا۔ بوٹ زمین پہ رکھے جائیں نہ جائیں لیکن ہوائوں سے گولہ باری جاری رہ سکتی ہے۔
۔ اس لیے طالبان اور اُن کی تاریخ ساز فتح پھر واضح طور پر حملہ آور کا ہدف معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے کہ جب وہ فتح کے ثمر سمیٹ اور سنبھال رہے ہیں اور حکومت سازی کی شکل میں اپنی بےمثال عسکری، سیاسی اور سفارتی کامیابیوں کے بعد پُرامن اور مستحکم افغانستان کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔
۔ دشمن کا ارادہ مکمل بےنقاب ہے کہ انہیں یہ نہ کرنے دیا جائے اور پھر سے جنگ و جدل میں اُلجھا دیا جائے ۔ ۔ باوجود اس کے کہ وہ عام معافی کا اعلان کر چکے اور ان کی تبدیلی بھی واضح ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پُرامن افغانستان کے دشمن کی یہ آخری کوشش کتنی کامیاب ہوتی ہے؟ ۔ خدشات و خطرات تو بہت ہیں، کابل ایئرپورٹ حملوں کے بعد پورے افغانستان ہی نہیں خطے کے ممالک میں بھی تشویش کا درجہ پھر بہت بلند ہو گیا ہے۔۔ اس وقت ہم پاکستانیوں کو دعا کے ساتھ اپنی کوشش تو کرنی ہی ہے کہ بے پناہ مشتعل یا انتہائی مایوس ہو کر امریکی انتظامیہ، نیٹو اور خود طالبان کوئی غلط فیصلہ نہ کرلیں۔ ۔ اس حوالے سے پاکستان کے فیصلہ ساز ناصرف یہ کہ اپنی انفرادی صلاحیتوں کو مکمل بروئے کار لائیں بلکہ دوستوں کے اشتراک سے ’’پُرامن و مستحکم افغانستان‘‘ کے لئے سفارتی کوشش اور باہمی مذاکرات کو کامیاب کروایا جائے ۔ کوئی راہ نکالی جائے۔ بلیم گیم اور مہلک شک و شبہ سے بچا جائے۔۔ اِس مرتبہ پاکستان اپنی مرضی سے یہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ یاد رکھیں اسلام آباد پر کوئی کچھ مسلط نہیں کر سکتا بلکہ بڑے بڑے کرداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پاکستان سے تعاون لینا ناگزیر ہو گیا ہے۔
۔ سانحہ کابل ایئر پورٹ کے حوالے سے امریکہ نے ہنگامی اور تشویشناک صورت حال میں پاکستان سے تعاون کی جو درخواست کی اور پاکستان نے اسے فوری تسلیم کرکے جو ہنگامی انتظامات کئے ہیں وہ دونوں ملکوں میں افغان مسئلے کی پیچیدگیوں کو طوالت سے پیدا ہونے والے باہمی اعتماد میں ہوئی کمی اور شک و شبہات کو دور کرنے میں معاون ہوں گے لیکن پاکستان کے شہروں کراچی، اسلام آباد، ملتان اور فیصل آباد میں امریکی فوجیوں یا شہریوں اور دوسرے غیر ملکیوں کی آمد اور ہوٹلز میں قیام کو محفوظ بنانا پاکستان کے لئے بڑا انتظامی چیلنج ہے۔
۔ خصوصاً داسو کے چینی انجینئروں پر ہلاکت خیز خود کش حملے، جوہر ٹائون کے بم دھماکے اور گوادر میں چینی ماہرین پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں یہ سہولت اور مہمان نوازی ریاستِ پاکستان کے لئے چیلنج ہی نہیں ایک بڑا انتباہ بھی ہے۔ ۔ اس حوالے سے سارا انحصار صوبائی حکومتوں کے سیکورٹی انتظامات پر ہی نہیں خود وفاقی حکومت اور ہمارے سیکورٹی اداروں کو مکمل الرٹ رہنا ہوگا۔ ۔ فی الحال میرے خیال میں خطے کے تمام ممالک اگر مل کر رہے تو یہ داعشی دہشتگردی صرف وقتی چیلنج ہے اور انشاء اللہ اس پر جلد قابو پالیا جائے گا۔