بھارت :جہاں بی جے پی نے مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے کا دعویٰ کرتا ہے، آج اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے ایک اذیت ناک خطہ بن چکا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت حکومت میں ریاستی سطح پر ایسا نظام پروان چڑھا دیا گیا ہے، جس میں مذہبی اقلیتوں کو منظم انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال محض داخلی مسئلہ نہیں رہی بلکہ بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کے ادارے، اور یہاں تک کہ ہمسایہ ممالک کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی رپورٹس اور واقعات نے بھارت میں اقلیتوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔
22 اپریل 2025 کو کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والا ایک حملہ، جس میں 26 شہری ہلاک ہوئے، اس تمام سلسلے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ بھارتی میڈیا اور حکومت نے فوری طور پر اس فالز فلیگ حملے کو پاکستان سے جوڑتے ہوئے "آپریشن سندور” کا آغاز کیا، جس کے تحت مبینہ طور پر "غیر قانونی دراندازوں” کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ تاہم کئی بین الاقوامی مبصرین اور انسانی حقوق کے ماہرین نے اس حملے کو ایک فالس فلیگ آپریشن قرار دیا ہے، جس کا مقصد ہندو قوم پرست بیانیے کو تقویت دینا اور مسلمانوں پر ریاستی جبر کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ اس بیانیے کی آڑ میں شروع ہونے والے آپریشنز نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک بھیانک داستان رقم کی ہے، جس کا انکشاف واشنگٹن پوسٹ نے 11 جولائی 2025 کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا۔
رپورٹ کے مطابق مئی سے جولائی 2025 کے درمیان بھارت کے مختلف حصوں، بالخصوص گجرات، آسام اور مغربی بنگال میں 1,880 افراد کو جبراً بنگلہ دیش جلاوطن کیا گیا، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ یہ جلاوطنی نہ صرف قانونی تقاضوں کے بغیر انجام دی گئی بلکہ اس میں جن افراد کو نشانہ بنایا گیا، ان کے پاس بھارتی شہریت کے مصدقہ ثبوت، ووٹر کارڈز، نکاح نامے اور تعلیمی دستاویزات موجود تھے۔ گجرات کے شہر سورت کے رہائشی حسن شاہ ایک ایسے ہی متاثرہ فرد ہیں جنہیں کچرا چننے کے جرم میں "غیر قانونی درانداز” قرار دے کر ان کے کاغذات چھین لیے گئے، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور بنگلہ دیش کی سمندری حدود میں پھینک دیا گیا۔ بنگلہ دیشی کوسٹ گارڈ نے انہیں بچا تو لیا، لیکن وہ آج نہ بھارت کے شہری رہے، نہ بنگلہ دیش کے اور ان کی بیوی و چار بچے بھارت میں بے یار و مددگار رہ گئے۔
اسی طرح احمد آباد کے نوجوان عبدالرحمان کو 26 اپریل کو علی الصبح اس کے گھر سے اٹھا لیا گیا۔ پولیس نے بغیر وارنٹ چھاپہ مارا، دستاویزات ضبط کیں اور 15 دن تک وحشیانہ تشدد کے بعد اسے ایک بنگلہ دیشی تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات آج بھی موجود ہیں، لیکن اس کی شہریت مٹا دی گئی۔ ان واقعات کے پس منظر میں جو حکمت عملی کارفرما ہے، وہ نہ صرف بھارتی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین، خاص طور پر 1951 کے مہاجر کنونشن اور "نان ریفولمنٹ” کے اصول کے بھی خلاف ہے، جس کے تحت کسی شخص کو ایسی جگہ واپس نہیں بھیجا جا سکتا جہاں اس کی جان یا آزادی خطرے میں ہو۔
پولیس کارروائیوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی حکومت نے بلڈوزر سیاست کا بھی بے دریغ استعمال شروع کر دیا۔ صرف احمد آباد کے چاندولا جھیل علاقے میں اپریل 2025 کے آخر میں ایک کریک ڈاؤن کے دوران 12,500 سے زائد گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ ان کارروائیوں میں 890 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 200 سے زائد خواتین اور بچے شامل تھے۔ متاثرہ افراد جیسے پروین اسماعیل رنگریز اور یونس خان پٹھان نے اپنے گھروں کی تباہی اور پولیس کے غیر انسانی سلوک کی تفصیلات بیان کیں، مگر کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ گجرات کے وزیر داخلہ ہرش سانگھوی نے اعلان کیا کہ "ہر ایک درانداز کو تلاش کیا جائے گا”۔ یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف غیر قانونی تارکین وطن ہی نہیں بلکہ بھارتی شہری بھی اس نسلی صفائی کی مہم کی لپیٹ میں ہیں۔
یہ سلسلہ صرف گجرات یا احمد آباد تک محدود نہیں رہا۔ آسام میں اڈانی انرجی پروجیکٹ کے لیے دو ہزار سے زائد خاندانوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا۔ 19 جون 2025 کو دی گارڈین کی رپورٹ نے ان انکشافات کو عالمی سطح پر اجاگر کیا کہ آسام کی زمینوں سے بھی زیادہ تر مسلمان اور دلت متاثرین کو ہی نکالا گیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے اس پر شدید احتجاج کیا اور کئی جلاوطن افراد کو واپس بھارت بھیجا، جن کے پاس بھارتی شہریت کے ثبوت موجود تھے۔ لیکن بھارت کی وزارت خارجہ اور بارڈر سیکیورٹی فورس نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ قانونی ماہرین کے مطابق، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان کوئی باضابطہ ڈیپورٹیشن معاہدہ موجود نہیں، جس کی بنیاد پر یہ تمام کارروائیاں غیر قانونی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شمار ہوتی ہیں۔
بی جے پی کی حکومت میں نشانہ صرف مسلمان نہیں بنے بلکہ عیسائی اور دلت برادریاں بھی بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کا شکار ہو رہی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز اور الجزیرہ کی رپورٹس کے مطابق راجستھان میں عیسائیوں کے چرچ تباہ کیے گئے، مذہب تبدیل کرنے کے الزامات میں گرفتاریاں ہوئیں اور دلتوں کی بستیوں کو بلڈوز کر کے مٹایا گیا۔ مسلمانوں کو تو اکثر روہنگیا، پاکستانی یا "غیر قانونی بنگلہ دیشی” قرار دے کر نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) اور شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA) جیسے قوانین کے تحت بے دخل کیا جاتا ہے، جیسا کہ 2019 میں 19 لاکھ مسلمانوں کے NRC سے اخراج میں دیکھا گیا۔
یہ سب کچھ عدلیہ، پولیس اور بیوروکریسی کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ عدالتیں ایسے مقدمات میں متاثرین کو انصاف نہیں دیتیں، پولیس ثبوتوں کو ضبط کر لیتی ہے اور میڈیا مسلسل بی جے پی کے بیانیے کو بڑھاوا دیتا ہے۔ ان اداروں کا کردار جمہوریت کی روح کے منافی اور فسطائیت کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی 2024 کی رپورٹ اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) جیسے اداروں نے ریاستی جبر کے اس منظم پیٹرن کو واضح کیا ہے، جس کے مطابق بی جے پی حکومت کے زیر اثر علاقوں میں نفرت انگیز جرائم اور مسماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
اس تمام پس منظر میں سب سے تشویشناک پہلو عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی ہے۔ اگر اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اب بھی خاموش رہیں تو بی جے پی حکومت کی ہندو بالادستی کی یہ پالیسی مزید جارحانہ ہو جائے گی۔ وقت آ چکا ہے کہ بھارت میں شہری و انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی دباؤ بڑھایا جائے۔ حسن شاہ، عبدالرحمان، پروین اسماعیل اور ہزاروں دیگر مظلوم چہروں کی داستانیں صرف انفرادی مصیبت نہیں بلکہ ایک اجتماعی ظلم کی علامت ہیں، جسے عالمی برادری کی خاموشی مزید تقویت دے رہی ہے۔ بھارت میں جمہوریت کے نام پر اقلیتوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، اور بی جے پی نے مسلمانوں پر واقعی زمین تنگ کر دی ہے۔