گزشتہ چند گھنٹوں میں ہندوستانی سرکاری اور پرو حکومتی میڈیا میں شائع ہونے والے الزامات نے ایک بار پھر سرحد پار “دہشت گردی” کے بیانیے کو زور پکڑنے کا موقع فراہم کیا۔ دہلی کے لال قلعے کے قریب کار دھماکے اور اسی کے بعد جاری کیے گئے دعوؤں کے تناظر میں یہ رپورٹ اُن دعوٰیوں، شواہد کی کمی، اعداد و شمار میں تضاد اور ممکنہ پروپیگنڈا پیٹرن کا تجزیہ پیش کرتی ہے۔
ہندوستانی اداکاروں اور میڈیا کے مطابق بھارتی فورسز نے ایل او سی کے قریب دراندازی کی ایک کوشش ناکام بنائی، دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے اور بعد ازاں بڑے پیمانے پر چھاپوں میں مجموعی طور پر 2,563 کلو گرام امونیم نائٹریٹ اور تقریباً 2,900 کلو گرام IED/دھماکہ خیز مواد ضبط کیا گیا ، جسے باضابطہ طور پر ایک “جال” یا ماڈیول کا حصہ قرار دیا گیا اور اس کا تعلق مبینہ طور پر جیشِ محمد سے جوڑا گیا ہے۔ اسی اثنا میں دہلی میں ایک کار دھماکہ بھی ہوا جس نے متعدد ہلاکتیں ہوئیں
بھارتی مختلف نیوز سروسز اور پرو حکومتی اکاؤنٹس نے ضبط کیے جانے والے مادّوں کی مقدار کے بارے میں مختلف اعداد دیے ، کچھ نے 2,563 کلو گرام، دوسرے نے 2,900 کلو گرام اور تیسری جگہ مختلف اعداد سامنے آئے۔ ان دعووں کے ساتھ جو شکلیں اور بیانات شائع کیے گئے، ان میں کسی بھی طرح کی آزاد، غیرجانبدار فرانزک رپورٹس، لیبارٹری کے نتائج، یا چین آف کسٹڈی کی دستاویزات منظر عام پر نہیں آئیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے کلپس اور تصاویر کی صداقت بھی تفتیش کے بغیر ثابت نہیں کی گئی۔ اس تضاد اور شواہد کی عدم موجودگی نے حقائق کی آزاد تصدیق میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔
یہ وہی حکمتِ عملی معلوم ہوتی ہے جو ماضی میں بھی دیکھی گئی: دھمکی کا شور ، ایک منظر نامہ (انکاؤنٹر/دراندازی) مبینہ شہادتیں/ثبوت کا اعلان، بڑے پیمانے پر چھاپے اور گرفتاریاں۔ پچھلے سالوں میں سوپور، پلوامہ اور پہلگام جیسے واقعات کے بعد بھی اسی رنگ میں بیانات اور کارروائیاں سامنے آئیں، جن پر بین الاقوامی سطح پر آزاد تصدیق طلب رہی یا بعد ازاں سوال اٹھائے گئے۔ کئی مبصرین اور حقوقِ انسانی گروپس کا ماننا ہے کہ ایسے واقعات کو مقامی آبادی اور اختلافِ رائے کو دباتے ہوئے داخلی ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان دعووں کے فوراﹰ بعد کشمیری علاقوں میں بڑے پیمانے پر چھاپے، گرفتاریوں اور تفتیشی کارروائیوں کی خبریں آئیں۔ ایسے آپریشنز میں اکثر آزاد اور غیرجانبدار مبصرین کی رسائی محدود رہتی ہے، جس کی وجہ سے انسانی حقوق کے حلقے خدشات ظاہر کرتے رہے ہیں کہ “دہشت گردی” کا لیبل مقامی آبادی کے خلاف اجتماعی سزا کے تناظر میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں شفافیت اور ثالثی جانچ کا فقدان خطرناک نتائج کو جنم دے سکتا ہے۔
اہم بین الاقوامی خبر رساں ادارے اور غیر جانبدار تجزیہ کار اس وقت تک مکمل، آزادانہ تصدیق کی تائید نہیں کر رہے جن بیانات کو بھارتی سرکاری ذرائع بڑے پیمانے پر پیش کر رہے ہیں۔ لال قلعہ کے واقعہ کی خبریں تو بین الاقوامی سطح پر رپورٹ ہو رہی ہیں، مگر منسلک دعووں ، خصوصاً ضبط ہونے والے مادّوں اور ان کے مبینہ روابط کی آزاد تصدیق ابھی دستیاب نہیں ہے۔ لہٰذا دعووں کو بطورِ حقائق قبول کرنے سے پہلے شواہد کا باضابطہ، شفاف اعلان ضروری ہے۔
بھارتی حکام نے بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مادّہ ضبط کیے جانے اور دراندازی ناکام بنانے کے بارے میں دعوے کیے ہیں، تاہم اعداد و شمار میں مستقل مزاجی اور آزاد فرانزک شواہد دستیاب نہیں۔ دہلی کے ریڈ فورٹ کے نزدیکی کار دھماکے کی خبریں بین الاقوامی ایجنسیوں نے رپورٹ کی ہیں، مگر اس واقعہ اور ضبطی/انکاؤنٹر کے بیچ تعلق کو ثابت کرنے کے لیے مزید شفاف شواہد درکار ہیں۔ گذشتہ تجربات اور بیانیے دیکھ کر امکان ہے کہ سیاسی/سیکیورٹی ایجنڈے کے تناظر میں بیانیے کو ایک خاص سمت میں ہموار کیا جا رہا ہے، جس سے مقامی آبادی اور انسانی حقوق پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ حقیقت جاننے کا واحد راستہ ہے، آزاد، غیرجانبدار فرانزک جانچ، شواہد کی مکمل دستاویزات، اور چین آف کسٹڈی کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھی جائیں۔ جب تک یہ شفافیت نہیں آتی، مباحثے اور قانونی کارروائیوں کو جذبات یا پراپیگنڈا پر مبنی بیانیوں کے بجائے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر چلانا چاہیے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں اور آزاد میڈیا کو بھی آزادانہ رسائی دینی چاہیے تاکہ حقائق کو چھان کر عوام تک پہنچایا جا سکے۔
بھارت اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور الزام تراشی کے لیے آپر یشن سندور کے خاتمے کے فوراً بعد اس بیانیے کو آگے بڑھا رہا ہے نام نہاد ایل او سی کی دراندازی اور د ھماکہ خیز مواد کا قبضہ ایک من گھڑت پرو پیگنڈہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو ایک جارح کے طور پر پیش کرنا اور مقبو ضہ کشمیر میں ہندوستان کی فوجی تعمیر کو جائز قرار دینا ہے۔ دھمکیاں تیار کرکے اور شہریوں کو مجرم بنا کر، بھارت کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانا اور کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو دبانا ہے۔








