اقلیتوں کی آڑ میں بنگلا دیش میں بھارتی مداخلت
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
بھارت نے بنگلا دیش میں دو ہندو راہبوں کی گرفتاری کو بنیاد بنا کر عالمی سطح پر بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے خلاف ایک منظم سفارتی محاذ کھول دیا ہے۔ اس کارروائی کا مقصد نہ صرف بنگلا دیش کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے بلکہ اپنے داخلی مسائل سے توجہ ہٹا کر خطے میں اپنی برتری قائم رکھنا بھی ہے۔ بھارت کی یہ حکمت عملی ایک جانب بنگلا دیش کے داخلی معاملات میں مداخلت کو ظاہر کرتی ہے تو دوسری جانب اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر جھوٹا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش ہے۔

بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف مظالم دنیا کے سامنے ہیں۔ مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنا، مسلمانوں کی جائیدادیں بلڈوز کرنا اور ان کے خلاف نفرت انگیز مہمات جیسے "لو جہاد”، "لینڈ جہاد” اور "ریڑھی جہاد” بھارتی سماج میں روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت عالمی برادری کے سامنے اپنی تصویر کو اقلیتوں کے محافظ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور بنگلا دیش کی عبوری حکومت پر اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویوں کا الزام عائد کر رہا ہے۔

بنگلا دیش میں حالیہ دنوں میں اِسک کون (ISKCON) کے دو ہندو راہبوں کی گرفتاری اور دیگر 17 افراد کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جانے کا معاملہ بھارتی میڈیا اور انتہا پسند تنظیموں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اِسک کون کو بنگلا دیشی عدالت نے ایک بنیاد پرست تنظیم قرار دیا ہے جس کی سرگرمیاں معاشرتی امن کے لیے خطرناک ہیں۔ تاہم بھارت میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور دیگر ہندو تنظیموں نے اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اچھالنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بنگلا دیش کے خلاف دباؤ ڈالا جا سکے۔

امریکا اور یورپ میں بھارت نواز لابیاں اس وقت سرگرم ہیں اور بنگلا دیش کی اقلیتوں پر مظالم کے الزامات لگا کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر رہی ہیں۔ ہندو کمیونٹی کے مختلف گروپ امریکا اور یورپ میں یہ بیانیہ پیش کر رہے ہیں کہ بنگلا دیش میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ گروپ عبوری حکومت کے خلاف فضا ہموار کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش کی عدالتوں نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بنیاد پرست تنظیموں کے خلاف کارروائی کی ہے۔

بنگلا دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد نے اِسک کون کے رہنما چنموئے کرشنا داس اور دیگر افراد کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق عبوری حکومت اقلیتوں کے خلاف امتیازی نوعیت کی کارروائیاں کر رہی ہے، جس سے اقلیتیں خوفزدہ ہو رہی ہیں۔ شیخ حسینہ نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلا دیش میں سیاسی عدم استحکام اور عبوری حکومت کے اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

بھارتی میڈیا نے اس پورے معاملے کو ہندو مخالف جذبات کے طور پر پیش کیا ہے تاکہ بنگلا دیش کے خلاف عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کیا جا سکے۔ بھارتی حکومت اس معاملے کو سفارتی طور پر اٹھا کر بنگلا دیش کی عبوری حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ واضح ہے کہ بھارت کی یہ مداخلت محض اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر نہیں بلکہ ایک بڑی سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا اور بنگلا دیش کے داخلی معاملات کو بین الاقوامی رنگ دینا ہے۔ اس حوالے سے عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کی ان چالوں کا نوٹس لے اور خطے میں استحکام کے لیے غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے۔

Shares: