جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ برادر پڑوسی ملک ایران اور پاکستان کے تعلقات برادرانہ ،مضبوط ،گہرے ، تاریخی اور صدیوں پر محیط ہیں ۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ایران کو کوئی شکایت یا غلط فہمی تھی تو خود کاروائی کرنےکی بجائے پاکستان سے بات چیت کرنی چاہئے تھی ۔ ایران پاکستان کے تعلقات کی نوعیت ایسی نہ تھی کہ ایران پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر اس طرح کی غیر معمولی کاروائی کرے۔ پاکستان کی جوابی کاروائی ہر چند کہ ایک طرح کا احتجاج نوٹ کرانا تھا تاہم دونوں ممالک مزید طاقت کے استعمال کے بجائے سفارتی ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے رابطے اور گفتگو سےباہمی تعلقات کو معمول پر لانے کا آغاز کریں اور تلخی میں مزید اضافے کو روکنے کیلئے پرامن اقدامات کریں۔صورتحال کو باہمی اعتماد سے کنٹرول نہ کیا گیا تو دشمن قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔ کاروائی سے ایک دن قبل انڈین وزیر خارجہ کے دورہ ایران سے شکوک وشبہات میں اضافہ ہورہا ہے ۔
پاکستان کا جوابی وار، ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا،
واضح رہے کہ ایران نے بلوچستان پر میزائل حملہ کیا جس کے بعد پاکستان نے فوری مذمت کی، اب پاکستان نے ایران سے اپنے سفیر کو بلانے اور ایرانی سفیر کو واپس بھیجنے کا اعلان کیا ہے,پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے، ایرانی سفیر کو واپس جانے کا کہہ دیا ہے،پاکستانی حکام کے ایران کے تمام دورے ملتوی کر دیئے گئے،یہ ردعمل ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر دیا گیا ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ غیر قانونی ایرانی قدم کے جواب کا حق رکھتے ہیں ساری زمہ داری ایران کی ہو گی،بعد ازاں پاکستان نے ایران کو منہ توڑ جواب دیا،ایران میں دہشت گرد وں کے کیمپوںکو نشانہ بنایا،پاکستانی فضائیہ نے ایران کے اندر علیحدگی پسندوں کے کیمپوں پر فضائی حملہ کیا۔پاکستان کے جوابی حملوں میں کسی سویلین یا ایرانی اہداف کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے پاکستان کو بلوچ دہشت گردوں کے ٹھکانے عرصہ دراز سے معلوم ہیں اور پاکستان نے کئی مرتبہ ایران کو بتایا ہے۔
نئی عالمی سازش،ایران کا پاکستان پر حملہ،جوابی وار تیار،تحریک انصاف کا گھناؤنا کھیل
پاکستان میں ہمارا ہدف دہشت گرد تھے ، پاکستانی شہری نہیں
ایران کے پاس اب آپشن ہے کہ یا تو خاموش ہو جائے یا پھر جنگ کے طویل سفر کے لئے تیار ہو جائے
پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر یہ حملہ ایران کی طرف سے جارحیت کا کھلا ثبوت
پاکستان نے ایران سے اپنے سفیر کو بلانے اور ایرانی سفیر کو واپس بھیجنے کا اعلان کیا
پاکستانی خود مختاری کی خلاف ورزی تعلقات، اعتماد اور تجارتی روابط کو نقصان پہنچاتی ہے
شہباز شریف نے ملکی فضائی حدود میں ایرانی دراندازی کی مذمت کی