بھارتی پنجاب کے خود ساختہ پادری بجندر سنگھ، جو ایک ویڈیو میں ایک مرد اور عورت کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے نظر آئے تھے، اب ایک اور سنگین الزام کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان پر ایک عورت کو بدسلوکی اور غلط طریقے سے قید کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

یہ واقعہ ایک دعائیہ اجلاس کے بعد پیش آیا، خاتون رانجیت کور نے الزام لگایا کہ اس نے اور دیگر افراد نے بدسلوکی اور جسمانی تشدد کا سامنا کیا۔خاتون نے دعویٰ کیا کہ بجندر سنگھ نے 17 سال کی عمر میں ان کے ساتھ نازیبا رویہ اپنایا اور غیر مناسب طور پر چھوا تھا۔28 فروری کو، کپورتھلا پولیس نے بجندر کے خلاف ایک کیس درج کیا۔ ان پر بھارتی قانون کے سیکشن 74 (عورت کو توہین کرنے کے ارادے سے حملہ یا جسمانی تشدد) اور سیکشن 126 (غلط طریقے سے قید) کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔پنجاب پولیس کی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور قومی کمیشن برائے خواتین نے اس پر رپورٹ طلب کی ہے۔

"شکایت کنندہ رانجیت کور اور تین سے چار دیگر خواتین نے بتایا کہ دعاؤں کے بعد ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شکایت درج کی گئی ہے اور اس کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا ہے۔ اس کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔” یہ بیان موہت کمار اگروال، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کا ہے۔

45 سالہ بجندر سنگھ پر 2017 میں جنسی ہراسانی کا کیس بھی درج ہوا تھا۔ ان پر دھوکہ دہی اور جعلسازی کے بھی الزامات ہیں اور ان کی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے چھاپے مارے ہیں۔2018 میں انہیں پنجاب کے شہر زرکپور سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کے ساتھ ریپ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس عورت نے دعویٰ کیا تھا کہ بجندر سنگھ نے اسے بیرون ملک سفر کی مدد کے جھوٹے وعدے کر کے دھوکہ دیا تھا۔جو عورت اس خود ساختہ پادری کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئی، اس نے بھی پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔بجندر سنگھ کا تعلق ایک ہندو جٹ خاندان سے تھا، مگر انہوں نے 2000 کی دہائی میں قتل کے مقدمے میں جیل جانے کے دوران عیسائیت اختیار کی۔

واضح رہے کہ بھارتی پنجاب میں ایک خود ساختہ شخص نے نعوذ بااللہ پیغمبر ہونے کا دعویٰ کر دیا، بجندر سنگھ نامی شخص نے خود کو نبی کہا اور وہ اپنے عقائد کی پرچار کر رہا ، اس کے اجتماعات میں ہزاروں افراد شریک ہو رہے ہیں اور اپنے مذہب کو تبدیل کر رہے ہیں.ایک خود ساختہ "نبوت” کا دعوی کرنے والے شخص کا نام بجندر سنگھ ہے، جو اپنے آپ کو پیغمبر کہلاتا ہے۔ اس شخص کے زیر اثر کئی لوگ عیسائیت قبول کر چکے ہیں، اور یہ رجحان پہلے مذہبی سکھوں تک محدود تھا، لیکن اب اس میں جٹ سکھ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ ایک واضح تبدیلی ہے جس کا اثر پورے پنجاب پر پڑ رہا ہے۔تقریباً دس سال قبل پنجاب میں عیسائیوں کی تعداد 2 فیصد تھی، لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 15 فیصد ہو چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مذہبی تبدیلی کے عمل میں اضافہ اور نئے مشنری اداروں کا پنجاب میں فعال ہونا ہے۔ کئی مقامات پر عیسائیت کے مشنری لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور انہیں مذہبی تعلیمات اور اقتصادی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

بجِندر سنگھ کی وزارت کا آغاز 2016 میں چنڈی گڑھ میں ایک چھوٹی سی عبادت گاہ سے ہوا۔ ابتدا میں اس عبادت گاہ میں صرف 100 لوگ آتے تھے، لیکن 2016 کے آخر میں جالندھر میں ایک اور کلیسا قائم کر لیا، جہاں 50 افراد شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، بجندر سنگھ کی قیادت میں اس کلیسا کی تعداد بڑھتی گئی اور 2017 تک ہزاروں لوگ ان کی عبادات میں شامل ہونے لگے۔ جالندھر اور چنڈی گڑھ میں ہر اتوار کو ہونے والی عبادات میں لوگ ہر عمر اور نسل سے آتے ہیں۔ ان کی عبادات میں شامل ہونے والوں کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے اور 2019 تک بَجندر سنگھ کی وزارت کی ماہانہ حاضری لاکھوں افراد تک پہنچ چکی ہے۔

Shares: