آج جہاں پاکستان ہے وہاں 50 ملین سال پہلے ایک سمندر تھا جس میں ڈولفنز بھی رہا کرتی تھی۔ مگر رفتہ رفتہ یہ سمندر سوکھ گیا اور چھوٹے بہاؤ کے راستے یا پھر دریا بچ گئے۔

وہ ڈولفنز جو کہ کھلے سمندروں کی باسی تھی اور صاف پانیوں کی دلدادہ تھی وہ ایک گہرے گدلے پانی میں پھنس کر رہ گئی۔ اس سروائیول کے دوران ان ڈولفنز نے خود میں ارتقائی تبدیلیاں کروائی اور ان کی آنکھوں کے جینز سائلنٹ ہوگئے۔

اور یوں یہ ہمیشہ کے لئے اندھی ہو کر رہ گئی۔

وقت کی اس دوڑ میں فطرت سے یہ ڈولفنز جیت گئی مگر پھر انسانوں سے ہار گئی۔

آٹھویں کلاس میں کہیں پڑھا تھا کہ انڈس ڈولفن ناپید ہو رہی ہے۔ بہت تجسس ہوا، سرچ کیا پتا چلا کہ انسانی آلودگی ان کے لئے نقصاندہ ہے مگر اس آلودگی کیساتھ ساتھ انسانی ذہنی آلودگی بھی ان کے ناپید ہونے کی طرف جانے کی وجہ ہے۔

یہ جاننا میرے لئے ڈسٹربنگ تھا کہ،

سندھی کلچر میں یہ سالوں پرانی روایت ہے کہ اگر آپ انڈس ڈولفن کیساتھ جنسی عمل کریں گے تو آپ کی مردانہ طاقت میں اضافہ ہوگا۔ اب جبکہ مردانہ طاقت ہمارے معاشرے میں موجود واحد طاقت ہے جس کی کمی ہر مرد کو ہے اس لئے انہوں نے کئی سالوں سے ان معصوم مچھلیوں کیساتھ جنسی زیادتی کرنے کا ایک کلچر بنا لیا اور یہ ایک اچیومنٹ بن گئی کہ انڈس ڈولفن کیساتھ جنسی عمل کیا ہے۔

اب اس بات کو آزادانہ سورسز تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ مگر ایک معاشرے کے فرد کو ان چیزوں کے نا ہونے پہ حیرت بالکل نہیں ہوتی کیونکہ یہاں پر گدھیوں، بکریوں اور ہرن تک کو جنسی زیادتی سے کوئی نہیں بچا سکتا بلکہ یہ بہت سے لوگوں کا پسندیدہ موضوع ہے اور اس پر باقاعدہ لطیفے بھی بنائے جاتے ہیں۔

خیر،

اب چونکہ یہ آبی مخلوق تھی گدھیوں کی طرح یہ انسانی زیادتی اور انسانی آب و ہوا دونوں برداشت نہیں کر پاتی تھی اس لئے مرنا انکی قسمت ہوا کرتی تھی۔

اب ماحولیاتی آلودگی اور انسانی آلودگی کی وجہ سے ان مچھلیوں کی تعداد کم ہو کر ہزار سے پندرہ سو رہ گئی ہے اور اگر IUCN درمیان میں نا آتا تو شائد اب تک ان ہزار باقی ماندہ کا بھی جنسی شکار کر لیا جاتا مگر اب یہ مشکل ہو چکا ہے۔

لیکن ابھی بھی بہت سے دوسرے جانور انسانی درندگی کا نشانہ بنتے ہیں اور چونکہ انکی زبان نہیں ہے اس لئے کوئی یہ نہیں جان سکتا۔ مگر یہ سچ ہے اور دیہات میں رہنے والے بخوبی جانتے ہیں۔

یاد رہے،

اس ضمن میں یہ چیز فقط پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ ٹرینڈ موجود ہے یورپ میں سور اس بات سے نہیں بچ پاتے اور اس کراہت آمیز روایت/کلچر یا پھر شوق کا حصہ رہ چکے ہیں۔ ابھی تعلیم اور شعور کے بعد یہ ٹرینڈ کم ہو چکا ہے لیکن یہ کراہت آمیز عمل انسانی معاشرے میں بخوبی موجود ہے۔

انڈس ڈولفنز ارتقاء کی بہت اچھی مثال تھی مگر ہم انہیں تقریبا مکمل طور پر کھو دینے والے ہیں اور یہ انتہائی دکھ دینے والی بات ہے۔

Shares: