مہنگائی اور واپڈا کی سلیب گردی، کیا یہی ہے آزادی؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
کل 14 اگست 2025 ہے، پاکستان کا 78 واں یومِ آزادی۔ سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے، قومی ترانہ گونجے گا اور تقریبات میں بلند بانگ دعوے کیے جائیں گے کہ ہم ایک آزاد اور ترقی یافتہ قوم ہیں۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ جب قوم مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہو، جب بجلی کے بلز واپڈا کی سلیب گردی کی شکل میں غریبوں کی کمر توڑ رہے ہوں، تو یہ کیسی آزادی ہے؟ گیلپ پاکستان کے تازہ سروے جس میں 500 سے زائد کاروباری شعبوں کی آراء شامل ہیں، قوم کی تکلیف کو عیاں کر دیا ہے۔ 28 فیصد تاجر مہنگائی کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں، 18 فیصد یوٹیلٹی بلز کے اضافے سے نالاں ہیں اور فوری حل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن حکمران، خاص طور پر وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری جو عوام کو بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کے بجائے جھوٹ پر مبنی کہانیاں اور مکارانہ چالیں چل رہے ہیں ،جو اقتدار کے نشے میں قوم کی چیخیں سننے سے قاصر ہیں۔

78 سال قبل ہم نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کی، لیکن آج ہم اپنے ہی حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں کی غلامی میں جکڑے ہیں۔ سروے بتاتا ہے کہ کاروباری طبقہ جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، بدترین حالات سے گزر رہا ہے۔ 28 فیصد تاجر مہنگائی کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یہ مہنگائی کیا ہے؟ یہ وہ زہر ہے جو غریب کے دسترخوان سے روٹی چھین رہا ہے جو بچوں کو سکول سے دور کر رہا ہے، جو مریضوں کو دوا سے محروم کر رہا ہے۔ آٹا، دال، چینی، تیل ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ پیٹرول مہنگا ہوتا ہے تو ٹرانسپورٹ مہنگی اور ٹرانسپورٹ مہنگی ہو تو اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اور حکمران؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم ترقی کی راہ پر ہیں۔ کس کی ترقی؟ چند سرمایہ داروں کی جو حکومتی سرپرستی میں پل رہے ہیں یا اس قوم کی جو بھوک اور افلاس سے مر رہی ہے؟

یوٹیلٹی بلز کا معاملہ اور بھی تکلیف دہ ہے۔ سروے کے مطابق 18 فیصد تاجروں نے بجلی کے بھاری بلز کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ واپڈا کی سلیب گردی نے غریبوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ سلیب سسٹم کوئی منصفانہ نظام نہیں، بلکہ ایک ظالمانہ ہتھیار ہے جو کم آمدنی والوں کو سزا دیتا ہے۔ تھوڑا زیادہ استعمال کیا، سلیب بدلی اور بل دگنا، تگنا۔ گرمیوں میں پنکھا، سردیوں میں ہیٹر ،یہ کوئی عیاشی نہیں ہے بلکہ بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن واپڈا نے اسے لگژری بنا دیا۔

وفاقی وزیرتوانائی اویس لغاری عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہیں کہ “ہم نے بجلی کی قیمتوں میں کافی ریلیف دیا”۔ یہ کیسا ریلیف ہے ؟، جب فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اور سلیب سسٹم نے غریبوں کی زندگی اجیرن کر دی؟ اویس لغاری کی یہ بے سروپا دلیلیں، یہ مکارانہ چالیں، عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ سروے بتاتا ہے کہ 47 فیصد تاجروں کو لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔ لوڈشیڈنگ! 78 سال بعد بھی؟ اویس لغاری کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے گرڈ سسٹم کی اپ گریڈیشن خواب ہی رہا۔ 53 فیصد نے لوڈشیڈنگ نہ ہونے کی بات کی، لیکن یہ کوئی کامیابی نہیں۔ یہ تو بنیادی حق ہے، جو نصف قوم سے چھینا جا رہا ہے۔ اویس لغاری کی سربراہی میں سولر اور ونڈ انرجی کے منصوبے محض کاغذی ہیں، جن کا کوئی عملی وجود نہیں۔

حکمرانو! سنو، یہ یومِ آزادی ہے لیکن قوم پوچھ رہی ہے کہ مہنگائی سے کب آزادی ملے گی؟ سروے کے مطابق 11 فیصد تاجروں نے ٹیکسوں کے بوجھ کو اپنا مسئلہ قرار دیا۔ GST اور انکم ٹیکس بڑھ رہے ہیں لیکن بدلے میں سہولیات کیا ہیں؟ ٹوٹی سڑکیں، خالی ہسپتال، بغیر اساتذہ کے سکول۔ ٹیکس دے کر قوم کیا پا رہی ہے؟ صرف حکمرانوں کے محلات اور پروٹوکول؟ 6 فیصد تاجروں نے سیاسی عدم استحکام کو خطرہ قرار دیا۔ سیاسی انتشار نے معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ ایک حکومت آتی ہے، دوسری جاتی ہے، لیکن مسائل وہیں کے وہیں۔ 7 فیصد نے قوت خرید میں بہتری کا مطالبہ کیا، 3 فیصد نے روپے کی قدر مستحکم کرنے کی بات کی۔ یہ سب حکومتی ذمہ داری ہے لیکن وہ کہاں ہیں؟ اقتدار کی ہوس میں ڈوبے ہوئے۔

سروے میں کچھ مثبت نکات بھی ہیں، لیکن وہ اویس لغاری کی ناکامیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ گزشتہ سروے میں 6 فیصد تاجروں نے حکومتی فیصلوں کو درست کہا تھا، اب 17 فیصد۔ لیکن یہ اضافہ اویس لغاری کی کامیابی نہیں ہے بلکہ چند سرمایہ داروں کی چاپلوسی ہے، جو حکومتی مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اویس لغاری کی زیر نگرانی بجلی کے شعبے میں اصلاحات کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نجکاری کے نام پر بجلی کمپنیاں سرمایہ داروں کے حوالے کی جا رہی ہیں جبکہ عوام مہنگے بلز تلے دب رہے ہیں۔ رشوت ستانی میں کمی آئی ہےگزشتہ 34 فیصد سے اب 15 فیصد۔ لیکن یہ اویس لغاری کی کامیابی نہیں بلکہ تاجروں کی ہمت ہے، جو اب رشوت دینے سے انکار کر رہے ہیں۔اویس لغاری کا آن لائن بلنگ سسٹم ایک مذاق ہے، جہاں اوور بلنگ اور غلطیاں روز کا معمول ہیں۔ لوڈشیڈنگ نہ ہونے کی بات 53 فیصد نے کی لیکن باقی 47 فیصد؟ وہ اویس لغاری کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے اندھیرے میں ہیں۔

یومِ آزادی پر قائد اعظم کے خواب کو یاد کیجیے۔ ایک خوشحال پاکستان، جہاں غریب اور امیر برابر ہوں۔ لیکن آج؟ IMF کے قرضوں کی غلامی نے قوم کو جکڑ رکھا ہے۔ مہنگائی، ٹیکس اور سبسڈیز کا خاتمہ ، یہ سب IMF کی شرائط ہیں۔ اور اویس لغاری؟ وہ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے جھوٹ بول رہے ہیں کہ “بجلی سستی کی”۔ یہ کیسا ریلیف، جب سلیب سسٹم اور فیول چارجز نے غریبوں کو زندہ درگور کر دیا؟ قرض ادا کون کر رہا ہے؟ قوم، اپنی جیب سے۔ لیکن حکمرانوں کے عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں۔

کاروباری طبقہ برباد ہو رہا ہے۔ مہنگائی نے خام مال مہنگا کر دیا، یوٹیلٹی بلز نے فیکٹریاں بند کر دیں، لوڈشیڈنگ نے پیداوار روک دی۔ اویس لغاری کی ناکام پالیسیوں نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں کو کاغذوں تک محدود رکھا۔ ٹیکسوں کا بوجھ چھوٹے تاجروں کو کچل رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام سے سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔ قوت خرید کم اور روپیہ کمزور۔ یہ سب حکومتی ناکامی کی زنجیر ہے۔

حکمرانو! جاگو، یہ یومِ آزادی ہے، لیکن قوم کی آزادی کہاں؟ مہنگائی روکو، بجلی سستی کرو۔ اویس لغاری کی جھوٹی کہانیوں سے باز آؤ، جو عوام کو بے وقوف بنا رہی ہیں۔ سلیب سسٹم کو منصفانہ بناؤ، لوڈشیڈنگ ختم کرو۔ قوم سے وعدہ کرو کہ اگلا یومِ آزادی حقیقی آزادی کا ہوگا۔ ورنہ، تاریخ تمہیں معاف نہیں کرے گی۔

Shares: