تیسری دنیا کے ممالک میں آپ پچھلے پچاس سالوں کے تمام انقلاب دیکھ لیں وہ انقلاب نہیں بلکہ امریکی سازش کے نتیجے میں پھیلنے والی انارکی تھے۔
عراق جیسا ہنستا بستا ملک کوئی نہیں تھا۔ دہشتگردی کا دنیا بھر میں وجود نہیں تھا مگر صدام حسین پسند نہیں تھا میر جعفروں کیساتھ مل کر اس کو ہٹایا گیا، نکلا کچھ بھی نہیں مگر وہ عراق جو پہلے پر امن تھا اب ایک عفریت کی جگہ بن گیا۔
سوویت کی چڑھائی کے دوران افغانیوں کی مدد کی گئی یہ جیت گئے مگر بعد میں جب یہ پر سکون حکمرانی کر رہے تھے تو افغانستان آپریشن شروع کر دیا گیا۔ نتیجہ کھنڈر افغانستان کی صورت میں سامنے ہے۔
عراق میں جو سنہ 2000 کے آغاز میں بیج بویا گیا اس نے پروان پکڑا اور یمن کی طرف ہجرت شروع کر دی، ایران اور عراق کی اس پراکسی وار میں یمن میں وہاں کے شعیوں کو بتایا گیا کہ وہ خطرے میں ہیں وہیں پر دوسری طرف امریکی مدد سے سعودیوں نے حوثی مخالف گروہوں کو سپورٹ کیا یہ چھوٹی موٹی لڑائیاں جاری تھی کہ عرب اسپرنگ نامی ایک جرثومے نے اس کو تقویت دی۔
اس عرب سپرنگ نے زور پکڑا اور پھر حوثیوں اور دوسرے گروہوں کی ایسی لڑائی شروع ہوئی کہ آج شام، یمن اور لیبیا تباہ ہو چکے ہیں۔ مصر اور اردن سیکیورٹی رسک پر ہیں اور لبنان پہلے ہی ریڈیکلائزڈ ہے۔ اس وقت شام اور یمن دو ممالک کا نام نہیں بلکہ مختلف باغی تحریکوں کی آماجگاہ ہیں جہاں پر ایک ملک کا وجود صرف باہر موجود شخص کو پتا ہے اندر سے یہ ملک تین سے چار گروہوں کے مجارٹی علاقوں میں منقسم ہیں۔
لیبیا کی جی ڈی پی معمر قذافی کی حکومت میں بہترین سے اوپر تھی۔صحت سمیت سب کچھ فری تھا حکومت شادی کرنے تک کے پیسے خود دیتی تھی مگر بتایا گیا کہ قذافی ٹھیک نہیں ہے انارکی ہوئی، آج لیبیا انارکی میں جی رہا ہے۔
انقلاب ایران تو سب کو یاد ہوگا۔ مگر اس انقلاب سے پہلے ایرانی کتنی پرسکون زندگی گزار رہے تھے یہ سب کو معلوم ہے لیکن اس بات کو تسلیم کرنا سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ خیر 70 کی دہائی میں آئے ‘انقلاب’ نے بہت کچھ بدلا، ملک شدت پسند ہوا مگر ایک فائدہ یہ ہوا کہ ایران کے اندر کسی اور ملک کی پراکسی وار نا چل سکی۔
کل سے پاکستانی سوشل میڈیا پہ اس بات کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں کہ ایران میں مورالٹی پولیس کا خاتمہ انقلاب ایران دوئم کی طرف اٹھا قدم ہے۔
یہ خبر ان کے لئے بہت خوش آئند ہوگی۔ مگر ہمیں نتائج معلوم ہیں۔ آج اگر خامنائی کا کنٹرول ایران سے ختم ہوا تو یہ ٹیکسٹ بک میں لکھی بات ہے کہ کل کو ایران بھی اگلا شام، یمن یا عراق ہوگا۔
یاد رکھیں.
انقلاب وہاں ہی کامیاب ہوتے ہیں جہاں ہمسائیے امیر اور ترقی یافتہ ہوں ورنہ سانپوں کے بیچ میں اپنی حفاظتی شیلڈ اتار کر انقلاب کی تمنا کرنے والوں کو سانپ ہی ڈستے ہیں۔
وہیں پر ہمارے تکفیری کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کے لئے یہ کمائی کا سیزن ہے کہ وہ یا تو انقلاب ایران کی ترویج کرکے پیسہ کمائیں یا اس کے مخالف گروہ یعنی ایرانی حکومت کی تائید کرکے، وہیں عام عوام جنہوں نے اس ممکنہ انارکی سے مرنا ہے وہ ان دانشوروں کی قلمی ماسٹربیشن سے تب تک نا آشناء رہتی ہے جب تک پاکستان کی طرح مہنگائی 50% تک اور بینکوں کی اے ٹی ایمز میں سے پیسے ملنے تک سب رک نہیں جاتے تب تک وہ ان قلمکاروں اور انقلاب فروشوں کے نعروں کو خریدتے رہتے ہیں۔
عرب اسپرنگ سے لیکر پاکستان تک ہر جگہ ان تجزیہ کار لفافوں کی قلمی ماسٹربیشن بہت کچھ بگاڑ چکی ہے۔ اور سدھرنے والا کچھ نہیں ہے یہ گھر اجاڑنے والے لفافے ایسے ہی گھروں کو اجاڑتے رہیں گے۔