ننکانہ صاحب،باغی ٹی وی(نامہ نگاراحسان اللہ ایاز) گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین بچیکی کی پرنسپل ڈاکٹر طاہرہ بتول کے خلاف حراسانی کے الزامات پر محکمانہ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ تاہم، ان کی ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز کے اضافی چارج کے باعث شفاف انکوائری پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

لیکچرار سمرن جیت کور، ماہین عبدالسلام اور یسرا محمود کی جانب سے حراسانی کی شکایات موصول ہونے پر ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (کالجز) لاہور ڈویژن نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر ضیاء الرحمان (گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے سائنس، وحدت روڈ لاہور) اور رکن نازیہ اکرم (پرنسپل، گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین، واپڈا ٹاؤن لاہور) کو سات روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

یہ معاملہ اس وقت پیچیدہ ہوگیا جب یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر طاہرہ بتول جو خود انکوائری کے دائرے میں ہیں، ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی تفتیش کے غیر جانبدارانہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ملزم فرد اثر و رسوخ سے دور ہو، ورنہ انکوائری محض رسمی کارروائی بن سکتی ہے۔

تعلیمی حلقوں اور فیکلٹی ممبران کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرہ بتول کو ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے فوری طور پر الگ کیا جائے تاکہ گواہوں کو بغیر کسی خوف و دباؤ کے بیان دینے کا موقع مل سکے۔

متعلقہ حکام کی خاموشی اس معاملے کو مزید مشکوک بنا رہی ہے۔ کیا یہ انکوائری آزادانہ ہوگی یا اثر و رسوخ کے باعث انصاف کا خون ہوگا؟ وقت کا تقاضا ہے کہ شفاف تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ ورنہ یہ معاملہ تعلیمی نظام پر ایک بدنما داغ بن سکتا ہے۔

Shares: